امریکہ: 'اسٹیٹ وزٹ' میں کیا خاص ہوتا ہے؟

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی ان دنوں امریکہ کے دورے پر ہیں ۔ اگرچہ وہ اس سے پہلے بھی تین مرتبہ وائٹ ہاؤس کے مہمان بن چکے ہیں لیکن اس بار ان کے اس دورے کو 'اسٹیٹ وزٹ' کا درجہ حاصل ہے۔

پورے سال مختلف ممالک کے سربراہانِ مملکت اور رہنما امریکہ آتے ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک دورہ 'اسٹیٹ وزٹ' نہیں ہوتا۔ اس دورے کے غیر معمولی ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صدر بائیڈن نے اپنے دورِ صدارت میں صرف تین بار سربراہانِ مملکت کو اسٹیٹ وزٹ کی دعوت دی ہے۔

امریکی صدر نے نریندری مودی سے قبل فرانس اور جنوبی کوریا کے صدور کو اسٹیٹ وزٹ پر مدعو کیا تھا۔

امریکی محکمۂ خارجہ کی گائیڈ لائنز کے مطابق غیر ملکی سربراہانِ مملکت کے دوروں کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔

سب سے اہم 'اسٹیٹ وزٹ'

پروٹوکول، استقبال کے انتظامات اور دیگر رسمی تقریبات کے اعتبار سے اسٹیٹ وزٹ کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اس دورے پر امریکی صدر عام طور پر کسی بھی ملک کے سربراہِ مملکت کو مدعو کرتے ہیں جن میں صدور یا شاہی حکمران شامل ہیں۔

اسٹیٹ وزٹ کے دوران مہمان سربراہِ مملکت کو وائٹ ہاؤس کے قریب ہی واقع صدارتی مہمان خانے بلیئر ہاؤس میں تین راتوں اور چار دنوں کے لیے ٹھہرایا جاتا ہے۔

اس دورے میں صدر نہ صرف مہمان سے ملاقات کرتے ہیں بلکہ وائٹ ہاؤس میں ان کے استقبال اور رخصت کے لیے باقاعدہ تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسٹیٹ وزٹ پر آنے والے مہمان کو 21 توپوں کی سلامی پیش کی جاتی ہے۔ امریکی صدر مہمان اور ان کے شریکِ حیات کے اعزاز میں ڈنر اور لنچ کا اہتمام کرتے ہیں اور انہیں اوول آفس میں تحائف بھی پیش کیے جاتے ہیں۔

SEE ALSO: 'مودی سے انسانی حقوق کے معاملات پر بات کریں'؛ ڈیموکریٹک ارکان کا بائیڈن کو خط

دیگر دوروں میں بھی صدر مہمان کو ڈنر یا لنچ وغیرہ پر مدعو کرتے ہیں لیکن اسٹیٹ وزٹ پر صدر کے دیے گئے اسٹیٹ ڈنر میں اضافی اہتمام ہوتا ہے۔اس میں مہمان ڈنر کا رسمی لباس پہنتے ہیں۔ اس کے لیے مہینوں پہلے تیاریاں کی جاتی ہیں جن میں دعوت کے لیے پکوانوں اور مشروبات کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے گلوبل بیورو آف گلوبل پبلک افیئرز کے مطابق اسٹیٹ وزٹ بنیادی طور پر امریکہ کی کسی ملک سے دوستی اور اہمیت کے اظہار کے لیے ہوتا ہے۔امریکی سفارتی تاریخ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ وزٹ عالمی سطح پر امریکہ کی ترجیحات اور اسٹرٹیجک پالیسیوں کے اہداف کی بھی غمازی کرتا ہے۔

بھارتی وزیرِ اعظم کا اسثنی

وزیرِ اعظم مودی اس سے قبل 2014، 2016 اور 2017 میں بھی امریکہ کا دورہ کرچکے ہیں جب کہ یہ پہلا موقع ہے کہ وہ امریکہ کے اسٹیٹ وزٹ پر ہیں۔

محکمۂ خارجہ کی گائیڈ لائنز کے مطابق امریکہ کے صدر سربراہِ مملکت ہی کو اسٹیٹ وزٹ پر مدعو کرتے ہیں۔ تاہم بھارتی آئین کے مطابق صدر ریاست کا سربراہ ہے جب کہ وزیرِ اعظم حکومت کے سربراہ ہوتے ہیں۔تاہم وائٹ ہاؤس نے وزیرِ اعظم مودی کو ’اسٹیٹ وزٹ‘ پر مدعو کرنے سے متعلق تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔

نریندر مودی سے قبل 2009 میں اس وقت کے بھارتی وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کے دورے کو آفیشل اسٹیٹ وزٹ کا درجہ دیا گیا تھا جب کہ 1963 میں صدر رادھا کرشنن نے امریکہ کا اسٹیٹ وزٹ کیا تھا۔

آفیشل اور اسٹیٹ وزٹ میں فرق

اسٹیٹ وزٹ کے بعد پروٹوکول کے اعتبار سے آفیشل وزٹ کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس دورے کے لیے امریکی صدر کسی ملک کے سربراہِ حکومت یعنی وزیرِ اعظم کو دورے کی دعوت دیتے ہیں۔

آفیشل وزٹ میں بھی مہمان کو بلیئر ہاؤس کے صدارتی مہمان خانے میں تین راتوں اور چار دن کے قیام کی پیش کش کی جاتی ہے۔ دورے میں مہمان سربراہِ حکومت کی صدر سے ملاقات ہوتی ہے اور وائٹ ہاؤس پر ان کی آمد کے موقع پر 19 توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔

اوول آفس

اس دورے میں بھی مہمان کے اعزاز میں عشائیہ دیتے ہیں اور انہیں صدر کی جانب سے تحائف بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ اسٹیٹ وزٹ میں بھی مہمان سربراہِ حکومت شریکِ حیات کے ساتھ شرکت کرسکتے ہیں۔ عملا آفیشل وزٹ اور اسٹیٹ وزٹ میں سلامی کی توپوں کی تعداد اور ڈنر کے اہتمام کے اعتبار سے بہت کم فرق ہوتا ہے۔ لیکن اعزازی طور پر اس دورے کی اہمیت اسٹیٹ وزٹ کے بعد ہی آتی ہے۔

آفیشل ورکنگ وزٹ اور ورکنگ وزٹ

البتہ آفیشل وزٹ کے بعد کی دو اقسام یعنی آفیشل ورکنگ وزٹ اور ورکنگ وزٹ میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔امریکی محکمۂ خارجہ کی گائیڈ لائنز کے مطابق صدر کسی بھی ملک کے سربراہِ ریاست یا حکومت میں سے کسی کو بھی ان دوروں کے لیے مدعو کرسکتے ہیں۔

آفیشل ورکنگ وزٹ میں بلیئر ہاؤس کے صدارتی مہمان خانے میں مدعو کیے گئے رہنما دو راتوں اور تین دن قیام کرسکتے ہیں۔ اس دورے میں بھی مہمان کی صدر سے ملاقات ہوتی ہے جس کے بعد وائٹ ہاؤس میں ہی ایک ورکنگ لنچ بھی رکھا جاتا ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ صدر اس دورے میں مہمان کے لیے ڈنر کی دعوت کا اہتمام کریں۔

ورکنگ لنچ میں صدر کے ساتھ امریکہ کے وزیرِ خارجہ بھی شریک ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ علیحدہ ملاقاتوں کا اہتمام نہیں ہوتا۔ مہمان کی وائٹ ہاؤس آمد یا رخصت کے موقع پر کوئی باضابطہ تقریب نہیں ہوتی۔ آفیشل ورکنگ وزٹ میں مہمان کو تحائف پیش نہیں کیے جاتے اور ان کے ساتھ تقریبات یا ملاقاتوں میں شریکِ حیات شرکت نہیں کرتے۔

ورکنگ وزٹ اور نجی دورے

آفیشل ورکنگ وزٹ کے بعد ورکنگ وزٹ کا درجہ آتا ہے۔ اس میں بھی صدرِ امریکہ کسی بھی سربراہ مملکت یا حکومت کے سربراہ کو مدعو کرتے ہیں۔ تاہم اس میں صدر لنچ یا ڈنر کی دعوت کا اہتمام کیے بغیر صرف مہمان سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کرتے ہیں۔ اس دورے میں بھی تحائف کا تبادلہ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی مہمان اپنے شریک حیات کو ساتھ لاتے ہیں۔

غیر ملکی سربراہانِ مملکت یا وزرائے خارجہ وغیرہ نجی دوروں پر بھی امریکہ آتے ہیں جس کے لیے انہیں صدر کے دعوت نامے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسے کسی دورے میں نجی دورے پر آنے والے رہنما امریکی صدر کے ساتھ ’ورکنگ سیشن‘ کی درخواست کرسکتے ہیں جب کہ ملاقات کرنا صدر کی صوابدید ہوتی ہے۔

نجی دوروں پر آئے ہوئے رہنماؤں کو صدارتی مہمان خانے میں نہیں ٹھہرایا جاتا اور نہ ہی ان کے لیے لنچ، ڈنر یا دیگر تقریبات کا اہتمام ہوتا ہے۔ان دوروں کا انتظام کرنے والے پروٹوکول عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ سیاسی اور پالیسی ترجیحات کے علاوہ دوروں کی تقسیم انتظامی نکتۂ نظر سے بھی کی گئی ہے۔