غزہ میں فون کو چارج کرنا روز مرہ زندگی کا ایک چیلنج بن گیا ہے ۔ یہ غزہ کے شہریوں کے لیے اتنا ہی وقت طلب اور پریشان کن ہے جتنا روٹی اور پانی کی تلاش ۔
"ہم روزانہ یہاں تین سے چار گھنٹے کے لیے آتے ہیں اور اپنے فون چارج کرنے کے لیے وقت ضائع کرتے ہیں ۔"
یہ کہنا تھا محمد ابو سخیتا کا جو شمالی غزہ کے الشتی پناہ گزین کیمپ سے ایک چھوٹے بچے سمیت اپنے خاندان کے ساتھ فرار ہو کر جنوبی غزہ میں رفح کے مقام پر ایک خیمے میں رہ رہے ہیں۔
جنگ میں گھرے غزہ میں کوئی چارجڈ فون ایک لائف لائن سے کم نہیں ہے ۔ یہ اسرائیلی بمباری کے بعد لوگوں کو اپنے عزیزوں کی خیریت معلوم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اسی کے ذریعے لوگ پتہ چلاتے ہیں کہ خوراک اور پانی کہاں دستیاب ہو سکتا ہے، اور یہ اندھیرا ہونے کے بعد خیموں میں روشنی فراہم کرتا ہے۔
لیکن رفح میں نقل مکانی کر کے آنے والے بہت سے فلسطینیوں کو اپنے فون چارج کرنے کے لیے گھنٹوں کسی اسپتال کے پاور آؤٹ لیٹ میں الجھی ہوئی کیبلز اور ایکسٹینشن کی لیڈز کے ارد گرد انتظار کرنا پڑتا ہے یا پھر کسی دکان پر فون چارجنگ کے لیے اپنی استطاعت سے بڑھ کر پیسہ خرچ کر کے یا پھر اپنے گھر یا کسی نزدیکی مقام پر کسی سولر پینل سے اپنے فون چارج کرانے پڑتے ہیں۔
محمد ابو سخیتا نے بتایا کہ ,"ٹیلی فون کو مکمل چارج کرنا اب ایک خواب کی مانند ہے۔ یہ بہت مشکل ہے آپ 50 یا 60 فیصد یا زیادہ سے زیادہ 70 فیصد تک چارج کر سکتے ہیں۔"
رفح کے اماراتی اسپتال کے باہر ایک چارجنگ اسپاٹ بہت مقبول ہے کیوں کہ یہاں لوگ مفت اپنے فون چارج کر سکتے ہیں۔ یہ اسپتال بے گھر لوگوں کو اپنے کیبل، اسپتال کے پاور ساکٹس میں پلگ کرنے کی اجازت دیتا ہے جو یا تو سولر انرجی سے چلتے ہیں یا کسی جنریٹر سے صرف اس صورت میں چلتے ہیں اگر اس کے لیے ایندھن دستیاب ہو۔
کچھ دوسرے مقامات پر کچھ گھرانے یا چھوٹے کاروباری افراد،جن کے پاس سولر پینل ہیں لوگوں کو اپنے فون چارج کرنے کی اجازت دیتے ہیں لیکن اکثر کچھ رقم کے عوض ایسا کرتے ہیں، جس کی سب استطاعت نہیں رکھتے۔
ابو سخیتا نے کہا، "میرے مالی حالات خراب ہیں ،اس لیے مجھے کوئی متبادل تلاش کرنا پڑتا ہے۔ جیسے کوئی اسپتال یا دکان، جہاں میں اپنا فون مفت چارج کرتا ہوں۔"
فون ہی وہ واحد ڈیوائس نہیں ہے جن کی باقاعدہ چارجنگ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ محمد ابو طہٰ ، جو رفح میں ایک حجام ہیں کہتے ہیں کہ وہ اپنی دکان پر کام کے دوران اپنے الیکٹرک استرے کو ری چارج کرنے کے لیے بار بار اپنے خاندانی گھر کے سولر پینل پر انحصار کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ,"میں لگ بھگ ہر بار اپنے کسی گاہک کے بال کاٹنے کے بعد اپنے بھتیجے کو گھر بھیجتا ہوں تاکہ وہ میرا استرا چارج کر کے لائے ۔ مجھے اپنے گاہک کو بتانا ہوتا ہے کہ اگر دھوپ نکلی تو میں کام کر سکتا ہوں اگر نہیں تو میں مجبور ہوں۔"
شمالی غزہ میں جبالیہ سے نقل مکانی کر کے رفح آنے والے محمود معروف بھی اماراتی اسپتال کے ایک چارجنگ اسپاٹ پر موجود تھے۔ وہ یہاں کاروں میں استعمال ہونے والی بیٹریوں جیسی ایک بیٹری چارج کرنے کے لیے آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہاں چارجنگ کے لیے آئے تھے لیکن ہمیں اس کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں مل رہی ۔
فون کے علاوہ لوگ اپنے ساتھ ایسی بیٹریاں چارج کرنے کے لیے لاتے ہیں جنہیں وہ پھر ان آلات کو چلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں جن کی انہیں اپنے خیموں میں ضرورت ہوتی ہے ۔
اسپتال میں رضاکار لوگوں کو باری باری فون چارجنگ کی اجازت کے لیے شیڈولنگ کا بندوبست کرتے ہیں تاکہ وہ ایک مخصوص وقت میں اپنا فون چارج کر سکیں ۔
یہ سسٹم زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قیمتی ساکٹس تک رسائی دے کر پریشانی سے بچنے میں مددکرتا ہے لیکن اس کی مانگ بہت زیادہ ہے اور ہر ایک کی مانگ پوری نہیں کی جاسکتی ۔
معروف نے کہا کہ انہیں اپنے بچوں کی میڈیکل ڈیوائسز کو پاور فراہم کرنے کے لیے، جو سانس کی تکلیف میں مبتلا ہیں، اپنی بیٹری کو چارج کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس پریشان کن صورت حال کے باجود جن خوش قسمت لوگوں کو بے صبری سے انتظار کرنے کے بعد اپنا فون چارج کرنے کے لیے کوئی اسپاٹ مل جائے تو وہ کوشش کرتے ہیں کہ اسے زیادہ سے زیادہ چارج کر لیں۔
غزہ سٹی سے نقل مکانی کر کے رفح آنے والے کے ایک شخص محمد الشمالی نے کہا، ان کے ٹیلی فون پر یہاں کی جانے والی چارجنگ ایک یا زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دن چلتی ہے ، اس سے زیادہ نہیں۔ "ہم اسے صرف روشنی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ،"کالز اور ٹیلی کام بند ہیں اس لیے ہمارے پاس انٹر نیٹ نہیں ہے ۔ ہم روشنی بچانے کی اپنی سی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں تاکہ ہم ان سڑکوں کو دیکھ سکیں جن پر ہم چلتے ہیں اور اپنے خیموں کے اندر دیکھ سکیں جن میں ہم رہتےہیں، بس اس سے زیادہ نہیں۔"
اس رپورٹ کا مواد رائٹر ز سے لیا گیا ہے۔