پاکستان میں آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان مذاکرات بالاخر کامیاب ہو گئے ہیں۔ دونوں جماعتوں نے شراکتِ اقتدار کے فارمولے پر اتفاق کر لیا ہے جس کے تحت آصف زرداری کو صدرِ پاکستان اور (ن) لیگ کے میاں شہباز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لیے نامزد کردیا گیا ہے۔
دونوں جماعتوں کے درمیان منگل کی شب دیگر آئینی عہدوں کی تقسیم پر بھی اتفاق ہوا ہے مگر دونوں جماعتوں کی قیادت نے ان عہدوں پر فیصلوں کا اعلان بعد میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کے شراکتِ اقتدار کے معاہدے کے تحت چیئرمین سینیٹ کا عہدہ پیپلز پارٹی اور اسپیکر قومی اسمبلی کا عہدہ مسلم لیگ (ن) کو ملے گا۔ اسی طرح ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مسلم لیگ (ن) کا ہو گا جب کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کا عہدہ پیپلز پارٹی کو دینے پر اتفاق ہوا ہے۔
دونوں جماعتوں کے درمیاں یہ بھی طے پایا ہے کہ صوبۂ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گورنر کا عہدہ پیپلز پارٹی جب کہ سندھ اور بلوچستان کے گورنر کا عہدہ مسلم لیگ (ن) کو ملے گا۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچستان میں وزیرِ اعلی کا عہدہ پیپلز پارٹی کو ملے گا جب کے صوبہ پنجاب میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی حمایت کرے گی۔
دونوں جماعتوں کے درمیان حکومت سازی کے لیے طے پانے والے معاہدے کی تفصیلات کو دیکھنے سے بظاہر لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی شرائط پر حکومت سازی کے لیے معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
SEE ALSO: پاکستان کے انتخابات مقابلے کے تھے، حکومت سازی اندرونی معاملہ ہے: امریکہمعاہدے سے قبل چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت میں شامل نہ ہونے اور وزارتیں نہ لینے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم آئینی عہدے لیں گے۔ پیپلزپارٹی اس فیصلے کے تحت بظاہر آئینی عہدے لینے میں کامیاب ہوئی ہے اور مسلم لیگ (ن) کو وفاق میں حکومت سازی کے لیے اپنے مؤقف سے دو قدم پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔
مگر ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدرِ پاکستان کے انتخاب کے بعد پیپلز پارٹی کے کابینہ میں شامل ہونے کا امکان ہے۔
حکومت سازی کے معاملات میں ڈیڈلاک کیسے ٹوٹا؟
پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت سازی کے لیے قائم کردہ مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان بات چیت کا چھٹا دور منگل کو ہوا لیکن مذاکرات کے کامیاب ہونے کا کوئی اعلان نہ ہوسکا۔
منگل کو ہی بلاول بھٹو زرداری نے سپریم کورٹ کے احاطے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے حکومت سازی سے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے سخت لب و لہجہ اختیار کیا اور کہا کہ وہ مسلم لیگ ن کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے اپنی شرائط پر ووٹ دیں گے۔
بلاول کی اس گفتگو کے بعد صحافتی و سیاسی حلقوں میں یہ کہا جانے لگا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان حکومت سازی کے لیے مذاکرات میں ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا ہے اور مذاکراتی عمل ناکامی کے قریب آ پہنچا ہے۔
مگر منگل کی شب اسلام آباد کے کچھ صحافیوں کو ذرائع نے بتایا کے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ایک اہم شخصیت کے گھر پر ملاقات ہوئی ہے۔ اس ملاقات کی باضابطہ طور پر دونوں جماعتوں نے تصدیق نہیں کی۔ البتہ ذرائع نے بتایا کہ اس ملاقات نے جادوئی کام دکھایا اور حکومت سازی کے تمام امور پر اتفاق کر لیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
مذکورہ ملاقات کی اطلاعات کے کچھ دیر بعد مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے شہباز شریف اور بلاول بھٹوزرداری کے درمیان سینیٹر اسحاق ڈار کے گھر میں ملاقات ہونے کی تصدیق کی۔
بیس فروری کی شب رات 10 بج کر 55 منٹ پر پیپلزپارٹی سیکریٹریٹ نے میڈیا کو یہ دعوت نامہ بھیجا کہ زرداری ہاؤس اسلام آباد میں بلاول بھٹو زرداری ساڑھے 11 بجے ہنگامی پریس کانفرنس کریں گے، تو میڈیا میں قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔
ایسا تاثر اس لیے دیا جا رہا تھا کہ اگر مذاکرات کامیاب ہوتے تو مشترکہ پریس کانفرنس کی جاتی لیکن جب میڈیا زرداری ہاؤس اسلام آباد پہنچا تو معلوم ہوا کہ مسلم لیگ ن کے میاں شہباز شریف، اسحاق ڈار، سردار ایاز صادق، ملک احمد خان، مصدق ملک پر مشتمل وفد بھی مشترکہ پریس کانفرنس کے لیے زرداری ہاؤس پہنچ چکا ہے۔
دونوں جماعتوں کی قیادت نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومت بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں ان کے نمبر پورے ہو چکے ہیں اور شراکتِ اقتدار کے معاہدے کے تحت دونوں جماعتیں آگے بڑھیں گی۔
آزاد اراکین کا اسمبلی میں کیا کردار ہوگا؟
آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں کسی بھی جماعت کو وفاق میں سادہ اکثریت سے حکومت قائم کرنے کے لیے درکار قومی اسمبلی میں نشستیں نہیں مل پائی تھیں۔ جس کے بعد یہ واضح ہوگیا تھا کہ وفاق میں اتحادی حکومت بنانا ہوگی۔
قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی چاہتی تو پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر حکومت قائم کر سکتی تھی مگر اس نے پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم سے حکومت سازی کے لیے کوئی بات چیت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
پی ٹی آئی کے اس فیصلے سے یہ تاثر پایا جا رہا تھا کہ وہ وفاق میں حکومت قائم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی اور وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
SEE ALSO: انتخابات 2024 کے نتائج: اسٹیک ہولڈرز کے لیے حیران کنمحسوس کیا جا رہا ہے کہ قومی اسمبلی میں اس بار حکومت کو سخت اپوزیشن کا سامنا کرنا ہوگا۔ قومی اسمبلی میں حکومتی ارکین کی تعداد کے لحاظ سے اپوزیشن اراکین کی تعداد تھوڑی ہی کم ہوگی اور نا چاہتے ہوئے بھی اپوزیشن لیڈر کا عہدہ پی ٹی آئی کو دینا ہوگا۔ صرف اتنا ہی نہیں اپوزیشن کو ایک اور عہدہ دینا ہوگا۔
میثاقِ جمہوریت کے تحت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ بھی اپوزیشن لیڈر کو ملنا ہے۔ یہ وہ فورم ہے جہاں حکومتی اخراجات پر اعتراضات آتے ہیں۔
پارلیمان کی یہ روایت رہی ہے کہ اپوزیشن لیڈر جس وقت بات کرنا چاہے اسے فلور دیا جاتا ہے۔ اس طرح قومی اسمبلی میں اپوزیشن ہر عوامی ایشو پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے سکتی ہے۔
پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں پی ٹی آئی اراکین عمران خان کی تصاویر لے کر آئیں گے اور ان کے حق میں نعرے بازی کرنے پر بھی سوچا جا رہا ہے۔