پاکستان میں 2015 کے مقابلے میں گزشتہ سال دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں میں نمایاں کمی آئی ہے، تاہم اس کے باوجود ملک کے بعض طبقات بشمول وکلاء، ججوں، شعبہ صحافت اور معاشرے کے دیگر طبقات میں عدم تحفظ کے حساس میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ بات پاکستان میں انسانی حقوق کے موقر غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان 'ایچ آر سی پی' کی طرف سے 2016 میں ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق بدھ کو جاری کی گئی رپورٹ میں کہی گئی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ گزشتہ سال پاکستان میں 87 قیدیوں کو پھانسی دی گئی جب کہ 487 کو موت کی سزا سنائی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک میں بسنے والے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو مذہبی انتہا پسند عناصر کی طرف سے نشانہ بنائے جانے اور سماجی امتیاز کے واقعات میں اضافہ جاری رہا اور ریاست کی طرف سے بھی ان کے تحفظ کے بہت کم اقدمات کیے گئے۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق سماجی حقوق کے لیے آواز بلند کر نے والے سرگرم کارکنوں کو توہین مذہب کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ سال کے دوران چھ صحافیوں اور بلاگرز کے قتل کی وجہ سے ذرائع ابلاغ کے شعبے سے وابستہ افراد کے لیے خوف کی فضا میں اضافہ ہوا جب کہ سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں کو بھی بعض عناصر کی طرف سے ہتک آمیز رویوں کا سامنا رہا۔
اس کے ساتھ 2016 میں میڈیا ہاؤسز، اخبارات کے دفاتر اور پریس کلبوں پر انتہاپسند سیاسی و مذہبی عناصر کی طرف سے حملوں میں اضافہ ہوا۔
تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے ملک کی تمام مذہبی برادریوں کو ملک کے آئین کے تحت مساوی حقوق حاصل ہیں اور ان کے تحفظ کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔
پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین بشیر محمود ورک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ "پاکستان کے ہر وفادار شہری، جو کسی بھی مذہب یا علاقے سے تعلق رکھتا ہو اس کی عزت کرنی چاہیے اور اس کو اپنا نقطہ نظر مثبت انداز میں پیش کرنے کا موقع دینا چاہیے اور دلیل کا جواب دلیل سے دینا چاہیے اور دلیل کا جواب ڈنڈے سے نہیں دینا چاہیے اور ہم سب کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔"
اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں آباد تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کیے جا رہے ہیں تاہم ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وجہ سے معاشرے کے تمام طبقات متاثر ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگرچہ گزشتہ سال خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے متعدد قوانین وضع کیے گئے تاہم اس کے باوجود خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں نمایاں کمی دیکھنے نہیں آئی ہے۔