ہیومن رائٹس کمیشن کی ملٹری ٹرائلز کی مخالفت؛ 'معاملات سویلینز کے پاس ہی رہنے چاہئیں'

پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ملک میں جاری سیاسی بحران پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

بدھ کو دیگر عہدے داروں کے ہمراہ اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے ایچ آر سی پی کی سربراہ حنا جیلانی نے کہا کہ کمیشن نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حق میں نہیں ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایچ آرسی پی کے مطابق جب کسی بھی سول شہری کا مقدمہ فوجی عدالتوں کے بجائے سول عدالتوں میں چلایا جا سکتا ہے تو پھر اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ ان مقدمات کو فوجی عدالتوں میں چلایا جائے۔

حنا جیلانی نے مزید کہا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق 33 سویلینز کو فوجی حراست میں دیا گیا ہے تاکہ ان کا مقدمہ آرمی ایکٹ کےتحت چلایا جائے۔

اُنہوں نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں ان افراد کو واپس سول حراست میں دیا جائے۔


حنا جیلانی نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ان تمام افراد کے بارے میں معلومات عام کریں جن کو نو مئی کے واقعات کے بعد حراست میں لیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا جائے کہ انہیں کن الزمات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔

حکومت کا مؤقف ہے کہ نو مئی کے واقعات میں بعض افراد کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں گے جو فوجی تنصیبات پر حملے میں ملوث تھے اور فوجی عدالتوں میں ہونے والے ٹرائل کی شفافیت اور تمام قانونی تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے گا۔

پاکستان کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ قبل ازیں وائس آف امریکہ کو بتا چکے ہیں کہ صرف حساس فوجی تنصیبات پر حملوں کے مقدمات ہی فوجی عدالتوں میں چلیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ نو مئی کے واقعات سے متعلق مقدمات کے لیے کوئی نیا قانون نہیں بنایا جا رہا ہے۔ حساس فوجی تنصیبات پر حملوں کے مقدمات کے سوا دیگر مقدمات سویلین عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔

Your browser doesn’t support HTML5

ملٹری کورٹ میں ٹرائل: 'ہمیں کوئی ثبوت دکھایا نہ چارج شیٹ دی'

'سب سے زیادہ نقصان سویلین بالادستی کا ہو رہا ہے'

ایچ آرسی پی نے ملک کے موجودہ سیاسی بحران پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ نو اور 10 مئی کو ہونے والے واقعات نے صورتِ حال کو مزید تشویش ناک بنا د یا ہے جس سے سب سے زیادہ نقصان سویلین بالادستی کا ہوتا نظر آ رہا ہے۔

حنا جیلانی کا مزید کہنا تھا کہ جہاں موجودہ حکومت سول بالادستی کو محفوظ کرنے میں مایوس کن حد تک ناکام ہو ئی ہے وہاں حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرنے والی پاکستان تحریکِ انصاف نے بھی فوج کی مداخلت کو ناگزیر بنانے کی کوشش کی۔

یاد رہے کہ نو مئی کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی مختصر وقت کے لیے گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد احتجاج کے دوران آرمی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

عمران خان کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت کسی بھی پرتشدد واقعے میں ملوث نہیں تھی لیکن ایچ آرسی پی کا کہنا ہے کہ نو اور 10 مئی کو ہونے والی کارروائیاں پرامن احتجاج کے ضمن میں نہیں آتیں۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے ان واقعات کے ردِعمل میں حکومتی اقدامات پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کئی بے گناہ لوگوں کو صرف پی ٹی آئی سے وابستگی کی بنا پر اُٹھا لیا گیا ہے جو سراسر ناانصافی ہے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ صرف ان لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے جنہوں نے ان کارروائیوں میں براہ راست حصہ لیا ہے۔

حنا جیلانی نے کہا کہ جماعت کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے کسی کو حراست میں لینا اور اس کے خلاف کسی قسم کا مقدمہ قائم کر کے اچھی مثال قائم نہیں کی جا رہی۔

پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس کے کارکنوں کو بڑ ی تعداد میں گرفتار کیاگیا ہے اور دورانِ حراست ان کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا گیا ہے۔

لیکن ایچ آرسی پی کا کہنا ہے کہ ان الزامات کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے اور ایسے الزامات کی آزادانہ تحقیقات بھی ہونی چاہئیں۔

ایچ آر سی پی نے تمام سیاسی فریقوں کو خبر دار کیا کہ پاکستانی عوام جس جمہوریت کے خواہاں ہیں وہ وفاداریوں کی تبدیلی کی بنیاد پر استوار نہیں ہو سکتی۔

ایچ آر سی پی کے عہدے داروں نے مزید کہا کہ تنظیم نے 2018 کے انتخابات میں ہونے والی سیاسی انجینئرنگ کی بھی مخالفت کی تھی اور آج بھی ایسے کسی مبینہ عمل کی مخالفت کرتے ہیں۔