پاکستان اپنے ہاں آباد روہنگیا پناہ گزینوں کا بھی خیال رکھے: ایچ آر ڈبلیو

فائل

بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں آباد روہنگیا مسلمانوں کی اصل تعداد سرکاری طور پر بیان کی گئی تعداد سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ'(ایچ آر ڈبلیو) نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ اسے روہنگیا مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں عالمی سطح پر آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاں مقیم اس برداری کے حقوق کا تحفظ بھی کرنا چاہیے۔

'ایچ آر ڈبلیو نے بدھ کو اپنے ایک بیان میں سرکاری اعداد و شمار کا حوالے دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں 55 ہزار روہنگیا مسلمان آباد ہیں جن کی اکثریت کراچی میں مقیم ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں آباد روہنگیا مسلمانوں کی اصل تعداد سرکاری طور پر بیان کی گئی تعداد سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

میانمار میں حالات کی خرابی کے سبب یہ روہنگیا 1962ء اور 1971ء میں پاکستان آئے تھے لیکن اُن میں سے بیشتر کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ نہیں ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو ہدف بنانے اور اُن کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے پاکستان کو میانمار پر دباؤ ڈالنے کے لیےتمام سفارتی راستے استعمال کرنے چاہئیں لیکن ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنی سرزمین پر موجود روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ کو بھی بہتر کرنا چاہیے۔

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل اور مشکل حالات میں اُن کی نقل مکانی پر پاکستان آواز بلند کرتا آیا ہے جب کہ روہنگیا مسلمانوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کی حکومت اور پارلیمان کی طرف سے مذمت بھی کی گئی ہے۔

وزیر مملکت محسن علی رانجھا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ وہ اس معاملے کو ایوان اور کابینہ کے سامنے ضرور رکھیں گے۔

"پاکستان کو اول بنیادوں پر اُن کے یہاں جو مسائل ہیں وہ حل کرنے چاہئیں اور اس میں حکومت کی طرف سے جس امداد کی ضرورت ہے وہ ہمیں یقینی طور پر فراہم کرنی چاہیے۔۔۔ وزارتِ داخلہ کی پالیسی ہے کہ جو بیرون ملک سے یا آفت زدہ علاقوں سے یا جن ممالک میں جنگی صورت ہے وہاں سے جو مسلمان ہمارے ہاں آتے ہیں اُن کے رہنے کے اسٹیٹس کا تعین کیا جاتا ہے۔۔۔ میں اپنی ذاتی حیثیت میں ایوان اور کابینہ میں اس مسئلے پر ضرور بات کروں گا کہ اس ایشو کو جلد از جلد حل کیا جائے۔"

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی رانا محمد افضل کہتے ہیں کہ برسوں پہلے میانمار سے پاکستان آنے والے افراد اُن کے بقول یہاں آزادی سے کام کر رہے ہیں۔

"دیکھیں وہ ہمارے ملک میں آزادی سے کام کر رہے ہیں، فیکٹریوں میں نوکریاں کر رہے ہیں۔ اب اُن کی اپنی ایک حیثیت ہے۔ اُن کے پاس پاکستان کے شناختی کارڈ آ گئے ہیں آہستہ آہستہ۔ جن کو (شناختی کارڈ نہیں ملے ہیں) وہ اپنی آواز اٹھا رہے ہیں۔ ہم اُن کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کریں گے۔ اتنے سالوں سے رکھا ہوا ہے تو اب انھیں نکالنے کا پروگرام تو (نہیں ہے)۔۔۔ ہمارے اپنے لوگ بڑے نرم دل والے ہیں وہ کبھی اس کو سپورٹ نہیں گے۔"

روہنگیا نسل کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف پر وزارتِ خاجہ نے گزشتہ ہفتے ملک میں تعینات میانمار کے سفیر کو طلب کرکے اُنھیں اس بارے میں پاکستان کی تشویش سے آگاہ کیا تھا۔