ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے اتوار کے روز کہا کہ غزہ پر اسرائیل کی جاری بمباری "سب کو کاروائی پر مجبور کر سکتی ہے" یہ اسرائیل اور حماس تنازعہ کے آغاز کے بعد اسلامی جمہوریہ کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین انتباہ ہے۔
7 اکتوبر کو حماس کے مسلح افراد نے سرحد پار کرکے، اسرائیلی علاقے میں دھاوا بول دیا تھاجس میں 1400 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
اس کے بعد سے اسرائیل فلسطینی آبادی والے غزہ کے علاقے پر بمباری اور گولہ باری کر رہا ہے۔ ان حملوں میں حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کے مطابق 8000 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں، جن میں سے نصف تعداد بچوں کی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
غزہ مفلسی کی شکار ایک ساحلی پٹی ہےجہاں 23 لاکھ افراد رہتے ہیں۔
رئیسی نےسوشل میڈیا پلیٹ فارم X ٰ(سابق ٹوئٹڑ)پر کہا، "صیہونی حکومت کے جرائم"ریڈ لائنز" کو عبور کر چکے ہیں، اور یہ ہر ایک کو ایکشن لینے پر مجبور کر سکتے ہیں۔"
انہوں نے کہا، "واشنگٹن ہم سےکہتا ہے کہ ہم کچھ نہ کریں، لیکن وہ اسرائیل کی وسیع حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔"
انہوں نے مزید لکھا"امریکہ نے مزاحمت کے محور کو پیغامات بھیجےہیں لیکن میدان جنگ میں اسے واضح جواب ملاہے۔" یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جو ایرانی حکام اکثر اسلامی جمہوریہ اور عراق اور شام میں اپنے اتحادیوں، جیسے لبنان کی حزب اللہ، یمن کے حوثیوں اور دیگر شیعہ طاقتوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اگرچہ یہ فوری طور پر واضح نہیں ہوسکا کہ وہ کس چیز کا حوالہ دے رہے تھے، لیکن غزہ کا تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے عراق اور شام میں امریکی افواج پر حملوں کے ساتھ ساتھ لبنان کی سرحد پر حزب اللہ اور اسرائیلی افواج کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں اضافہ ہوا ہے۔
ایران نے، جو مالی اور عسکری طور پر حماس کی پشت پناہی کرتا ہے، 7 اکتوبر کے حملوں کو کامیاب قرار دیاتھا۔ لیکن اس نےزور دیا ہے کہ وہ اس حملے میں ملوث نہیں تھا، جس کے دوران اسرائیلی حکام کے مطابق 230 افراد کو یرغمال بھی بنایا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایرانی صدر نے ہفتے کے روز الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ "ایران مزاحمتی گروپوں کی حمایت کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے، لیکن بقول اس کے ، " مزاحمتی گروپ اپنی رائے، فیصلے اور عمل میں آزاد ہیں"۔
خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق انہوں نے کہا کہ امریکہ ہماری موجودہ صلاحیتوں کو اچھی طرح جانتا ہے اور جانتا ہے کہ ان پر قابو پانا ناممکن ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نےحال ہی میں اقوام متحدہ کو بتایا کہ امریکہ ایران کے ساتھ تنازعہ نہیں چاہتا، لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایران یا اس کے پراکسیز نے کہیں بھی امریکی اہلکاروں پر حملہ کیا تو واشنگٹن فوری اور فیصلہ کن کارروائی کرے گا۔
امریکہ کہتا رہا ہے کہ وہ حماس کے اسرائیلی شہریوں پر حملے اور 200 سے زیادہ لوگوں کو یرغمال بنانے کے بعد اس کی جانب سے اپنے دفاع کے حق کو تسلیم کرتا ہے لیکن واشنگٹن نے بار بار اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے حملوں میں سویلین ہلاکتوں سے گریز کرے۔
صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے اسرائیل پر حماس کے سات اکتوبر کے حملوں کے بعد سے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی آباد کاروں کےانتقامی حملوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
SEE ALSO: صدر بائیڈن کی مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی آباد کاروں کےانتقامی حملوں کی مذمتانہوں نے یہ بھی کہا تھاکہ وہ دہائیوں سے جاری اسرائیل-فلسطین تنازعے کے خاتمے کے لیے دو ریاستی حل پر کام کرنے کے اپنے عزم کا پھرسے اعادہ کر رہے ہیں۔
بائیڈن نے کہا کہ "انتہا پسند آباد کاروں کے حملے حماس کے حملے کے بعد مشرق وسطیٰ میں پہلے سے جلتی ہوئی آگ پر "تیل چھڑکنے " کے مترادف ہیں۔ "اسے روکنا ہوگا۔ ان کا احتساب ہونا چاہیے۔ اسے ابھی روکنا ہوگا،”
یہ رپورٹ اے ایف پی اور اے پی کی معلومات پر مبنی ہے۔