|
یوکرین اور غزہ کی جنگوں اور ایشیا میں کشیدگی کی وجہ سے گزشتہ سال بڑے ہتھیاروں کی فروخت میں اضافہ ہوا جس میں روس اور مشرق وسطیٰ کے اسلحہ سازوں کی فروخت نمایاں طور پر بڑھ گئی۔
تحقیقی ادارے "اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ" نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا کی 100 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کی طرف سے ہتھیاروں اور فوجی سروسز کی فروخت گزشتہ سال 4.2 فیصد کے اضافے کے ساتھ 632 ارب ڈالر رہی۔
اس سے قبل سال 2022 میں عالمی کمپنیاں اسلحے کی طلب میں اضافے کو پورا کرنے میں ناکام رہی تھیں جس سے فروخت میں کمی آئی تھی۔
تاہم، رپورٹ کے مطابق ان میں سے بہت سی اسلحہ ساز کمپنیاں 2023 میں اپنی پیداوار میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔
مانگ میں زبردست اضافے کی بنا پر 100 کمپنیوں نے پہلی بار انفرادی طور پر پچھلے سال ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا کاروبار کیا۔
SEE ALSO: بڑھتے ہوئے تنازعات سے بین الاقوامی قانون کی بالادستی کو شدید خطرہ لاحق ہے: ایمنیسٹیاسٹاک ہوم ادارے میں فوجی اخراجات اور ہتھیاروں کی تیاری کے پروگرام کے ایک محقق لورینزو سکارازاٹو کے مطابق 2023 میں ہتھیاروں کی فروخت میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
محقق نے کہا کہ دنیا کے سرفہرست 100 کمپنیوں کی فروخت پھر بھی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیمانے کی پوری طرح عکاسی نہیں کرتی ہے اور بہت سی کمپنیاں عملے کی بھرتیوں میں اضافہ کر رہی ہیں جو مستقبل کے لیے انکے پرامید ہونے کی علامت ہے۔
تحقیقی ادارے کے مطابق چھوٹی اسلحہ ساز کمپنیاں غزہ اور یوکرین کی جنگوں، مشرقی ایشیا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور دیگر خطوں میں دوبارہ اسلحہ سے لیس کرنے کے پروگراموں کی وجہ سے پیدا ہونے والی نئی مانگ کو پورا کرنے میں زیادہ موثر رہی ہیں۔
فوجی اخراجات کے پروگرام کے ڈائریکٹر نان تیان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ان میں سے بہت سی کمپنیوں کو اسلحے کا کوئی ایک جزو بنانے میں مہارت ہوتی ہے، یا پھر وہ ایسے نظام بناتی ہیں جن کے لیے صرف ایک ہی سپلائی چین کی ضرورت ہوتی ہے۔
SEE ALSO: جنگوں کے سبب اسلحے کی طلب میں اضافہ، بین الاقوامی کمپنیوں کا ریونیو کم کیوں ہوا؟امریکی کمپنیوں کا 2023 میں افروخت میں ریکارڈ اضافہ
دنیا کی سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کے طور پر امریکی کمپنیوں نے 2023 میں اپنی فروخت میں 2.5 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا۔
امریکی مینوفیکچررز کا اسلحے کی کل عالمی تجارت میں پچاس فیصد حصہ ہے جبکہ 41 امریکی کمپنیاں دنیا کی سرفہرست 100 کمپنیوں میں شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دنیا کی دو سب سے بڑی کمپنیوں لاک ہیڈ مارٹن اور آرٹی ایس کی فروخت میں کمی آئی۔
اسٹاک ہوم ادارے کے نان تیان کا کہنا ہے کہ ان کمپنیوں کا انحصار اکثر پیچیدہ، کئی سطحوں پر مشتمل سپلائی چینز پر ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ سپلائی چین کے چیلنجوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ چیلنجز کا یہ رجحان برقرار ہے۔
یورپ اور روسی روسٹیک کمپنی کی پیداوار
یور پ نے اپنے 27 اسلحہ ساز گروپوں کے ساتھ گزشتہ سال فروخت میں صرف 0.2 فیصد کا اضافہ کیا۔
پیچیدہ ہتھیاروں کے نظام تیار کرنے والی یورپی کمپنیاں پچھلے سال پرانے معاہدوں کو پورا کرنے کے لیے کام کر رہی تھیں۔ ان کی پیداوار تیزی سے آنے والے نئے آرڈرز کا اظہار نہیں کرتیں۔
دوسری طرف دیگر گروہوں کے کاروبار میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے جو کہ یوکرین کی جنگ سے منسلک مانگ کے باعث ہوا۔ ان میں خاص طور پر گولہ بارود، توپ خانے اور فضائی دفاعی نظام اور زمینی نظام شامل ہیں۔
روس کے اسلحہ کے فروخت کے اعداد و شمار اگرچہ نامکمل ہیں لیکن وہ جنگ کی طرف بڑھنے والی معیشت کے اثرات کو ظاہر کرتے ہیں۔
SEE ALSO: امریکہ ، چین، بھارت ، پاکستان سمیت نو ایٹمی ملکوں کے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ جاریروس کے دو بڑے اسلحہ ساز گروپوں کی فروخت میں 40 فیصد اضافہ ہوا جس کی بنیادی وجہ اسلحہ پیدا کرنے کی بڑی ریاستی کمپنی راوسٹیک کی فروخت میں 49 فیصد کا اضافہ تھا۔
ادھر مشرق وسطیٰ کے اسلحہ ساز گروپوں کے کاروبار میں اضارفہ یوکرین کی جنگ اور اکتوبر 2023 میں غزہ پر اسرائیلی حملوں سے ممکن ہوا۔
اسٹاک ہوم ادارے کی درجہ بندی میں تین اسرائیلی مینوفیکچررز نے 13.6 ارب ڈالر کی ریکارڈ فروخت کی۔
ترکیہ کے ڈرون بنانے والے گروپ بایکر سمیت تین گروپوں کی فروخت میں 24 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ ان گروپوں کی کار کردگی کو یوکرین جنگ اور ترکیہ کے اپنے دفاع کو فروغ دینے کی ارادے سے مدد ملی۔
ایشیا میں عمومی طور پراسلحہ سازی کے رجحان میں تجدید جنوبی کوریا کے چار اسلحہ سازوں اور پانچ جاپانی ہتھیار بنانے والی کمپنیوں کی فروخت میں اضافے سےہوئی۔ چین کی نو اسلحہ ساز کمپنیوں نے "سست رو معیشت" کے پس منظر میں س اضافے کے رجحان کی عکاسی کی۔
(اس خبر میں شامل مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)