پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر تشویش ہے، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان

جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج۔ فائل فوٹو

پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے 2021 میں پاکستان میں آزادی اظہار کی صورت حال پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہےکہ گزشتہ سال ملک میں نہ صرف آزادی اظہار کابنیادی حق خطرے ووچار ہوا بلکہ کئی دیگر انسانی حقوق بھی محدود ہوئے۔

انسانی حقوق کی تنظیم نے اس بات کا انکشاف جمعے کو 2021 میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق جاری ہونے والی اپنی رپورٹ میں کیا ہے ۔ اس موقع پر ایچ آر سی پی نے موجودہ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانی حقوق کے معاملے پر توجہ دیتے ہوئے آزادی اظہار کو یقینی بنانے اور محروم طبقات کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کا عہد کرے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہےگزشتہ سال ملک میں نہ صرف آزادی اظہار کی صورت حال مخدوش ہوئی بلکہ اس دوران 9 ایسے واقعات رپورٹ ہوئے جس میں صحافیو ں کو مختلف طریقوں سے ڈرا دھمکا کر خاموش کرا دیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ حکومت کو ایک آرڈیننس کے ذریعے مجوزہ پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے متنازع ادارے کو قائم کرنے کی کوشش کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔

SEE ALSO: جھوٹی یا جعلی خبر دینے پر پانچ سال تک سزا ہو گی; صدارتی آرڈیننس جاری


یادر ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی سابق حکومت نے ملک میں میڈیا کی نگرانی کے لیے ملک میں پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کی کوشش کی تھی جس کی صحافی تنظیموں ، بعض سیاسی جماعتوں اور نسانی حقوق کی تنظیموں نے سخت مخالفت کی تھی جن کا موقف تھا کہ اس متنازع مجوزہ ادارے سے معلومات کی ترسیل اور آزادی اظہار پر زد پڑ سکتی ہے۔ تاہم پاکستان میں قائم ہونے والی نئی حکومت نے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2021 میں ریاست کی طرف سے آزادی اظہار پر قدغن عائد کرنے کی کوششوں سے ملک میں غیر ریاستی عناصر کو شہ ملی کہ وہ پرتشدد طریقے سے اپنی بات دوسر وں پر مسلط کریں۔ رپورٹ کے مطابق سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں سری لنکن فیکٹری مینجر کا قتل اور انسانی حقو ق کے کارکن ناظم جوکھیو کا سندھ میں ایک سیاسی جماعت سے منسلک افراد کے ہاتھوں قتل ان ہی رویوں کامظہر ہے۔

جبری گمشدگیوں کے سب سے زیادہ واقعات بلوچستان سے رپورٹ ہوئے

انسانی حقوق کی موقر تنظیم ایچ آر سی پی کے رپورٹ میں اس بات پر تشویش کااظہار کیا گیا ہے کہ ملک میں جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کا قانون سابق حکومت کے عزم کے باوجود پارلیمان سے منظور ہونا باقی ہے۔

رپورٹ میں اس تشویش کا اظہار ایک ایسےوقت کیاگیا جب گزشتہ سال جبری گمشدگیوں کے سب سے زیادہ واقعات بلوچستان سے رپورٹ ہوئے جن کی تعداد 1108 تھی، جب کہ انکوئری کمیشن کے پاس لاپتہ افراد کے سب سے زیادہ حل طلب مقدمات کا تعلق صوبہ خبیر پختونخواہ سے بتایا جاتا ہے جن کی تعداد 1417 ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

بلوچستان: لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے پیدل مارچ


گزشتہ سال اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے ترجمان نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کے مسودہ قانون کی منظور ی دے اور جبری گم شدگیوں سے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی کنویشن کی توثیق کرے۔یادر ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے 2018 میں جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کا قانون منظور کرنے کے عزم کا اظہار کیاتھا لیکن یہ قانون تاحا ل منظور نہیں ہو سکا۔

پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے جبری گمشدگیوں کے واقعات تواتر سے رپورٹ ہوتے رہتے ہیں اور پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ کئی برسوں سے لاپتا ہیں جن میں بلوچ بھی شامل ہیں۔ ان لاپتا افراد کے اہل خانہ ان کی گمشدگی کا الزام بعض ریاستی اداروں پر عائد کرتے ہیں،مگر ریاستی اداروں کی جانب سے ان الزامات کو مسترد کیا جاتا رہا ہے۔


مذہب یا عقیدے کی آزادی


رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2021 میں توہینِ مذہب کے الزام میں کم از کم 585 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، جن کی
اکثریت کا تعلق پنجاب سے تھا۔توہینِ مذہب کے الزام کا نشانہ بننے والے افراد میں رحیم یار خان میں آٹھ سال کی عمر کا ایک ہندو لڑکا بھی شامل ہے۔ ایچ آر سی پی نے 2021 میں سندھ میں مذہب کی جبری تبدیلی کے کم از کم 27 واقعات ریکارڈ کیے
جن میں سے سات واقعات کمسن بچوں سے متعلق تھے۔

سینٹر فار سوشل جسٹس کے مطابق، پنجاب میں مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات کی تعداد 2020 میں 13 سے بڑھ کر 2021 میں 36ہو گئی۔ رپورٹ میں احمدی برادری کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ احمدی مذہبی برداری
کے ارکان کے خلاف مذہبی بنیادوں پر 100 سے زائدمقدمات درج کیے گئے، جن میں خود کو مسلمان ظاہر کرنا،اپنے عقیدے کی تبلیغ کرنا، اور توہینِ مذہب کے الزامات شامل ہیں۔ احمدی برادری کے کم از کم تین افراد مبینہ طور پر اپنے عقیدے کی بنیاد پر ٹارگٹ حملوں میں مارے گئے۔

SEE ALSO: توہینِ مذہب کے نام پر تشدد؛ 'سوچنا ہو گا کہ پاکستان میں ہی یہ واقعات کیوں ہوتے ہیں'


عدالتوں میں زیر التوا مقدمات

رپورٹ کے مطابق ملک کی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات 2021 کے اواخر تک ایک لاکھ 40 ہزار تھے جب کہ 2020 میں یہ تعداد ایک لاکھ 50 ہزار تھی جس سے ظاہرہوتا ہے کہ تصفیہ طلب مقدمات میں معمولی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2021 میں کم ازکم 125 افراد بشمول تین خواتین کو سزائے موت سنائی گئی جب کہ 2020 میں یہ تعداد 177 تھی لیکن گزشتہ سال کسی بھی شخص کی سزائے موت پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری جانب گزشتہ سال ایک اہم فیصلے میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے ذہنی امراض میں مبتلا تین قیدیوں کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔ ہیومن رائٹس کمیشن نے عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے کی رو سے یہ اصول وضع ہو گیا ہے کہ اب کسی ذہنی بیمار فرد کو سزائے موت نہيں دی جائے گی۔ دوسری جانب رپورٹ کے مطابق 2021 میں خواتین سے زیادتی کے پانچ ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ غیر ت کے نام پر قتل کے نام پر 478 مقدمات درج کیے گئے۔

جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی

رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر کی کل 119 جیلوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی بند ہیں جن کی کل تعداد 87 ہزار 668 ہے جب کہ سب جیلوں میں گنجائش 65 ہزار 334 افراد کی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق، جیل میں قید افراد میں سے تقریباً 68 فیصد زیرِ سماعت قیدی ہیں جن کی تعداد 59 ہزار 422 ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنوری 2021 میں سینیٹ کو پیش کی گئی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 9191 پاکستانی 73 ممالک کی جیلوں میں بند ہیں ۔

حکومت کیا کہتی ہے؟

ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ پر تاحال وائس آف امریکہ کی درخواست کے باوجود موجودہ یا سابق حکومت کے وزیر برائے انسانی حقوق کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

گزشتہ سال10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر اس وقت کی حکومت کی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے ایک پیغام میں کہا تھا کہ ان کی حکومت آئین میں دیئے گئے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق اور خاص طور پر محروم طبقات کے تحفط کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کے دوران گزشتہ سال دسمبر میں صحافیوں کے تحفظ کا قانون منظور ہوا جس کےتحت صحافیوں کے تحفظ کے لیے ایک کمیشن کا قیام بھی شامل ہے۔

دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت میں مقرر ہونے والے انسانی حقوق کے وزیر ریاض حسین پیر زادہ نے حال ہی میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس کے دوران تمام میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اور جیل اصلاحات کے معاملے کو اجاگر کرنے پر زور دیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے کمیشن کے قیام پر پیش رفت کا جائزہ لینے لیے کے ان صحافیوں سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا جنہوں نے اس قانون کے مسودے کی تیاری میں حصہ لیا تھا تاکہ صحافیوں کو درپیش مسائل کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جائے۔

خود وزیر اعظم شہباز شریف نے عہدہ سنبھالنے کے بعد تئیس اپریل کو کوئٹہ کے پہلے دورے میں لا پتہ افراد کے معاملے کو مقتدر حلقوں کے ساتھ اٹھانے کا وعدہ کیا اور کہا کہ وہ معاملے کو میریٹ، انصاف اور قانون کی بنیاد پر اٹھائیں گے۔