ایک نئی تحقیقی مطالعے میں کہا گیا ہے کہ ایسے مردوں اور بچوں کے بارے میں جو انسانوں کی تجارت کا شکار ہوئے ہیں، اور زیادہ ریسرچ کی ضرورت ہے۔ اس مطالعے میں کہا گیا ہے کہ ان لوگوں کو اپنی زندگیاں نئے سرے سے شروع کرنے کے لیے جس قسم کی طبی اور نفسیاتی دیکھ بھال کی ضرورت ہے، وہ انہیں فراہم نہیں کی جا رہی ہے۔
بین الاقوامی سطح کی تنظیموں نے اندازہ لگایا ہے کہ 25 لاکھ افراد انسانی تجارت کی وجہ سے جبری محنت کر رہے ہیں۔ اور انسانوں کی تجارت کا مسئلہ دنیا کے ہر کونے میں موجود ہے۔ صنعتی ملکوں میں تقریباً 270,000 افراد اور ان کے علاوہ، افریقہ کے زیریں علاقے، مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقہ اور لاطینی امریکہ میں مزید لاکھوں افراد انسانی تجارت کا شکار ہوئے ہیں۔
اورام نے لندن کے کنگز کالج کے انسٹیٹیوٹ آف سائیکاٹری سے تعلق رکھنے والے ریسرچرز کی ایک ٹیم کی قیادت کی ۔
وہ کہتی ہیں کہ عورتوں کی تجارت کے جسمانی اور نفسیاتی اثرات پر بہت سا تحقیقی کام ہوا ہے ۔’’ان تحقیقی مطالعوں میں عورتوں کی خرید و فروخت کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے ۔ ان کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے اور انہیں بہت زیادہ جسمانی اور جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے جسمانی، جنسی اور دماغی صحت کے بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔‘‘
بہت سے مرد کھیتوں میں اور ماہی گیری کی کشتیوں میں جبری محنت کرنے والے مزدور بن جاتے ہیں۔ بہت سے بچوں کو مسلح گروپوں میں بھرتی کر لیا جاتا ہے، ان کے ساتھ جنسی زیادتیاں کی جاتی ہیں یا انہیں منشیات کی غیر قانونی تجارت میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
اورام سے دریافت کیا گیا کہ ان لوگوں پر جو کچھ گذرتی ہے، اس کے بارے میں ہمیں کیا کچھ معلوم ہے، تو انھوں نے جواب دیا’’واقعہ یہ ہے کہ ہمیں کچھ زیادہ پتہ نہیں ۔ ہمیں ایسی کوئی ریسرچ نہیں ملی جس میں فروخت کیے گئے مردوں کی صحت کا ذکر ہو۔ اور ہمیں صرف چند تحقیقی مطالعے ملے جن میں فروخت کیے جانے والے بچوں کا ذکر تھا اور یہ رپورٹیں بھی بہت سر سری سی تھیں۔‘‘
اورام کو یقین نہیں کہ اس معاملے میں ہمارا علم اتنا محدود کیوں ہے، لیکن وہ کہتی ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی مدد کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے ۔’’میں سمجھتی ہوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم ایسے مردوں اور ایسے بچوں کی ضرورتیں پوری کرنا چاہتے ہیں اور انہیں ان کے تجربات کے اثرات سے نکالنا چاہتے ہیں، تو ہم یہ کام اس طریقے سے نہیں کر سکتے جس کی بنیاد ٹھوس معلومات اور ثبوت پر ہو، کیوں کہ ٹھوس ثبوت موجود ہی نہیں ہے ۔‘‘
انسانی تجارت کا شکار ہونے والے بہت سے لوگوں کو صرف شدید تشویش کا مسئلہ ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک اور عارضے میں گرفتار ہو جاتے ہیں جسے طب کی اصطلاح میں پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر یا صدمے کے بعد شدید دباؤ کا عارضہ کہتے ہیں ۔ یہ وہ کیفیت ہے جس کا تجربہ اکثر جنگی سرگرمیوں میں حصہ لینے والوں کو ہوتا ہے ۔
پوسٹ ٹرامیٹک سٹرس ڈس آراڈر (پی ٹی ایس ڈی) کے نتیجے میں شدید کمزوری محسوس ہو سکتی ہے۔ اورام کہتی ہیں۔’’مثال کے طور پر، اگر عورتیں پولیس سے باتیں کر رہی ہیں، یا اگر وہ امیگریشن کا انٹرویو مکمل کر رہی ہیں، اور ان میں PTSD کی کچھ علامتیں موجود ہیں، تو انہیں اپنی توجہ مرکوز کرنے میں دشواری ہو گی، یا ان پر جو کچھ گذری ہے اس کے بارے میں اہم واقعات انہیں یاد نہیں آ رہے ہیں، تو یہ سب ان کے دماغی اور جسمانی عارضے کی علامتیں ہیں ۔‘‘
اورام کہتی ہیں کہ یہ بات جاننا ضروری ہے کہ کیا مردوں اور بچوں پر ایک جیسے اثرات ہوئے ہیں۔’’میں سمجھتی ہوں کہ فروخت کیے جانے والے بچوں اور مردوں کے بارے میں ترجیحی بنیادوں پر ریسرچ کی ضرورت ہے ۔ اور میرے خیال میں تحقیق کرنے والوں کو ایسی تنظیموں سے رابطہ کرنا چاہیئے جو ان لوگوں کی مدد کر رہی ہیں، تا کہ وہ اس علم سے فائدہ اٹھا سکیں جو پہلے سے موجود ہے ۔‘‘
اس تحقیقی مطالعے میں کہا گیا ہے کہ ایسی کوئی علامت نظر نہیں آتی کہ انسانی تجارت میں کمی آ رہی ہے ۔ بہتر اصلاحی اقدامات کرنے کے لیے زیادہ معلومات کی ضرورت ہے تا کہ اس عالمی جرم سے پیدا ہونے والے جسمانی اور نفسیاتی نقصان کے اثرات کو ختم کیا جا سکے ۔