|
غزہ میں امریکہ کی جانب سے بنائی گئی عارضی بندرگاہ سے امداد کی ترسیل جاری ہے۔ چند روز قبل امریکہ نے اس عارضی بندرگاہ کی تعمیر کا کام مکمل کیا تھا۔
امریکی محکمہ دفاع کے مطابق بدھ کی شب تک عارضی بندرگاہ کے ذریعے 800 ٹن سے زائد امداد پہنچ چکی ہو گی۔ تاہم اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ قحط سے بچنے کے لیے زمینی راستوں سے امداد کی ترسیل میں تیزی ناگزیر ہے۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کا کہنا ہے کہ "امداد جاری ہے، تاہم یہ اس رفتار سے نہیں ہے جس سے ہم سے کوئی بھی خوش ہو گا۔ یہ زیادہ ہونی چاہیے۔"
امریکی بحریہ کے وائس ایڈمرل بریڈ کوپر کے مطابق امریکہ کو اُمید ہے کہ نئی تعمیر شدہ بندرگاہ کے ذریعے روزانہ تقریباً 500 ٹن یا تقریباً 90 ٹرک امداد فراہم ہو سکے گی۔
SEE ALSO: مصر غزہ میں امداد کی ترسیل کو یقینی بنائے: بلنکن'یہ ناکافی ہے'
دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک نے کہا ہے کہ اس نے حالیہ دنوں میں امریکی بندرگاہ سے زیادہ توانائی والے بسکٹس کی محدود تعداد بھیجی ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا کہ یہ انسانی ہمدردی کے نئے سمندری راستے سے آنے والی پہلی امداد ہے جس کی گزشتہ سال اکتوبر سے جاری جنگ سے متاثرہ فلسطینیوں کو شدید ضرورت ہے۔
SEE ALSO: اقوام متحدہ نے رفح میں خوراک کی تقسیم روک دی
انسانی ہمدردی کے عہدے داروں اور امریکہ کا کہنا ہے کہ سمندری راستہ زمینی گزرگاہوں کے ذریعے امداد لانے کا مکمل طور پر متبادل نہیں ہے۔
انسانی ہمدردی کی امداد فراہم کرنے والے اداروں نے بارہا اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ زمینی راستوں سے امداد کی مسلسل ترسیل کی اجازت دے۔
امدادی اداروں کے مطابق سمندری راستے سے ہر روز غزہ کے لیے 150 ٹرکوں کے برابر امداد پہنچائی جا سکتی ہے۔ تاہم غزہ کے لوگوں کو قحط کی صورتِ حال سے واپس لانے اور انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے ہر روز ہنگامی طور پر خوراک کے سامان کے 600 ٹرکوں کی ضرورت ہے۔
امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ زمینی گزرگاہوں پر اسرائیلی پابندیوں اور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس سے لڑائی میں اضافے نے غزہ میں خوراک اور ایندھن کی ترسیل کو جنگ کے پہلے مہینوں کے مقابلے میں کم ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رفح میں اسرائیلی کارروائیاں
دریں اثنا اسرائیلی ٹینکوں نے بدھ کی رات جنوبی غزہ میں رفح میں پیش قدمی کی ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق فوجی آپریشن میں رفح پر شدید بمباری کی گئی جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ محفوظ مقام کی طرف جانے پر مجبور ہو گئے۔
جنوبی شہر رفح کے ایک رہائشی نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ ڈرونز، ہیلی کاپٹروں، جنگی طیاروں اور ٹینکوں سے رات بھر اسرائیلی فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔
دوسری طرف اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے پاس غزہ میں ان مقامات پر حملہ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے جہاں حماس کے ارکان چھپے ہوئے ہیں۔
غزہ کے 23 لاکھ لوگوں میں سے تقریباً نصف نے رفح میں پناہ لی تھی جب کہ اسرائیل کے رفح میں جاری فوجی آپریشن کے بعد سے اب تک تقریباً آٹھ لاکھ لوگ دوبارہ نقل مکانی کر چکے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کی جنگ پچھلے سال اکتوبر میں اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے جنوبی اسرائیل میں اچانک حملہ کیا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 250 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں 35 ہزار سے زائد فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
(اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں اداروں 'ایسوسی ایٹڈ پریس' اور 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں)