خالی پیٹ کا غصہ شریک حیات پر اترتا ہے، تحقیق

امریکی محقیقین نے کہا کہ ، مطالعے کے نتیجے کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ، اصل میں گلوکوز دماغ کے لیے غذا ہے اور خود کو قابو میں رکھنے کے لیے ہمیں اس کی ضرورت پڑتی ہے ۔
ہم اکثر اپنے محاوروں میں یہ جملہ استعمال کرتے ہیں کہ خالی پیٹ اچھی اچھی باتیں نہیں ہو سکتیں۔ آج کی جدید سائنس نے بھی کچھ اسی سے ملتے جلتے محاورے کا پرچار کیا ہے کہ پیٹ اگرخالی ہو تو غصہ شریک حیات پر اترتا ہے۔

اسے مذاق نہیں سمجھئے کیونکہ ماہرین سائنسی پیمانے پراس مفروضے کو پرکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جب لوگ خالی پیٹ ہوتے ہیں تو ان کا غصہ زیادہ تر شریک حیات پر اترتا ہے۔

امریکی محقیقین نے کہا ہے کہ اگر ہماری خوراک جسم کے لیے ناکافی ہےتو اس سے ہمارے دماغ کی توانائی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ لہذا مطالعے کے نتیجے کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اصل میں گلوکوز دماغ کے لیے غذا ہے اور خود کو قابو میں رکھنے کے لیے ہمیں اس کی ضرورت پڑتی ہے۔

اگرچہ ہمارا دماغ جسم کے وزن کے صرف 2 فیصد کے برابر ہے لیکن جسم خوراک سے جتنی گلوکوز پیدا کرتا ہے دماغ اس کا 25 فیصد خرچ کر ڈالتا ہے۔ اسی طرح پھپھڑے اپنے اندر جتنی آکسیجن جذب کرتے ہیں اس کا 20 فیصد دماغ ہی استعمال کرتا ہے۔

سائنسدان دماغ کو ایک بے حد 'ڈیمانڈنگ' عضو قرار دیتے ہیں جو ذرا بھی بھوک یا توانائی کی کمی کو برداشت نہیں کر سکتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بھوک معدے کو نہیں بلکہ دماغ کو لگتی ہے۔

جب گلوکوز کی سطح کم ہونے لگتی ہے تو دماغ ہی معدے کو بھوک کا احساس دلانے کے لیے پیغام بھیجتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ پیٹ خالی ہونے سے دماغ بھی خالی ہو جاتا ہے۔ اسی لیے گلوکوز کو دماغ کا پیٹرول کہا جا سکتا ہے اور اسی لیے توانائی کی کمی کے نتیجے میں ہمارے مزاج میں چڑچڑاپن پیدا ہوتا ہے۔

تحقیق دانوں نے مشورہ دیا ہے کہ اگر آپ شریک حیات سے کوئی مشکل بات کرنا چاہتے ہیں تو اس بات کا یقین کر لیں کہ آپ دونوں بھوکے نہ ہوں۔

اس مطالعے میں ماہر نفسیات یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ جسم میں گلوکوز کی کمی سے جو بھوک جاگتی ہے وہ کسی کو بھی لڑنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ لیکن اب تک کے مطالعوں میں اجنبی لوگوں کے ساتھ اس قسم کے تجربات کئے گئے تھے۔ جبکہ پروفیسر بریڈ بشمین یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کیا دو پیار کرنے والے بھی اس صورتحال میں ایک دوسرے کے مد مقابل دشمنوں کی طرح کھڑے ہو سکتے ہیں۔

محقیقین نے سلسلہ وار تجربات کے دوران 107 شادی شدہ جوڑوں سے ایسے سوالنامے بھروائےجو ان کی ازدواجی زندگی سے متعلق تھے۔ ہر روز صبح اور شام شرکا کے خون میں گلوکوز کی سطح کی پیمائش کی گئی اور رات میں غصے کی پیمائش کے لیے انھیں ایک کپڑے کی گڑیا دی گئی اورساتھ ہی 51 پنیں دی گئیں کہ وہ ہر رات اپنے ساتھی پر غصہ کرنے کے بجائے اپنا غصہ اس گڑیا پر پنیں گھونپ کر اتاریں۔

'جرنل پروسیڈنگ آف نیشنل اکیڈمی آف سائنس' کی رپورٹ کے مطابق تین ہفتے کے اس تجربے کے بعد جب محقیقین نے گڑیاؤں کی حالت کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ جن لوگوں کی ہر رات بلڈ شوگر کم تھی انھوں نے گڑیا پر زیادہ غصہ نکالا تھا بہ نسبت ان لوگوں کے جن کے خون میں چینی کی سطح زیادہ تھی۔

اوہائیو یونیورسٹی سے منسلک ماہر نفسیات بشمین نے کہا کہ حتی کہ وہ جوڑے جنھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی ازدواجی زندگی بہت زیادہ اچھی ہے انھوں نے بھی گلوکوز کم ہونے کی صورت میں بہت زیادہ جھنجھلاہٹ کا اظہار کیا۔

ایک دوسرے تجربے میں محققین یہ جانا چاہتے تھے کہ کیا غصے کے ایسے جذبات انھیں جارحانہ رویے اختیار کرنے پر بھی مجبور کر سکتے ہیں۔

اسی لیے جارحیت کی سطح کی پیمائش کرنے کے لیے مرد اور خواتین کو ایک کمپیوٹر گیم کھیلنے کے لیے کہا گیا اور انھیں بتایا گیا کہ وہ یہ کھیل اپنے شریک حیات کے خلاف کھیل رہے ہیں۔ اس لیے جتنی بار وہ جیتیں اپنی خوشی کے اظہار کے طور پر چڑانے والی آوازیں نکالیں مثلاً ایمبولینس کے سائرن اور بلیک بورڈ پر انگلیوں کی آوازیں وغیرہ۔

اس کھیل میں بھی جن لوگوں کے خون میں چینی کی کمی دیکھی گئی انھوں نے بے انتہا شور شرابا کیا۔ اسی طرح تجربہ گاہ میں شرکا کوایک مزید آزمائشی مرحلے سے گزارا گیا جس کے نتیجے سے یہی ثابت ہوا کہ توانائی کی کمی شرکا میں تکرار کا باعث بنی۔

پروفیسر بریڈ بشمین کا کہنا ہے کہ ہم سبھی جانتے ہین کہ جب ہم بھوکے ہوتے ہیں تو کس قدر چڑ چڑاپن محسوس کرتے ہیں اور کبھی کبھار بد تمیزی پر بھی اتر آتے ہیں۔ اسی لیے لوگ اس خیال سے خود کو قریب پائیں گے، بلکہ اس رجحان کو ' ہنگری' کے ساتھ' اینگری' کا لفظ لگانے سے ظاپر کیا جاسکتا ہے۔

لیکن بہتر ازدواجی تعلقات کے لیے بے حد ضروری ہے کہ غصے کی کیفیت پر قابو رکھا جائے۔ لیکن بد قسمتی سے لوگ اپنے دیگر جذبات چھپانا تو جانتے ہیں لیکن غصے کے جذبات کو کنٹرول کرنے کے لیے موثر طریقے نہیں جانتے۔

محققین نے شادی شدہ جوڑوں کو مشورہ دیا ہے خاص طور پر رات کے کھانے پر بحث و مباحثہ کرنے سے بہتر ہے کہ اسی بات کو رات کے کھانے کے بعد کیا جائے تاکہ غیر ضروری تکرار سے بچا جا سکے۔