شریف خاندان کے غیر ملکی اثاثوں اور مبینہ مالی بے ضابطگیوں کی سپریم کورٹ کے حکم پر تحقیقات کرنے والی مشترکہ ٹیم کے سامنے منگل کو وزیراعظم نواز شریف کے بڑے صاحبزادے حسین نواز چھٹی مرتبہ پیش ہوئے۔
اس ٹیم کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے دی گئی 60 روز کی مدت رواں ہفتے ختم ہو رہی ہے اور اس بنا پر جہاں ایک طرف پیشیوں کا سلسلہ تیز کردیا گیا ہے وہیں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی طرف سے ٹیم کے تفتیشی طریقہ کار پر تحفظات میں شدت آتی جا رہی ہے۔
چھ ارکان پر مشتمل ٹیم نے بدھ کو وزیراعظم کے صاحبزادی مریم نواز کو طلب کر رکھا ہے جب کہ پیر کو چھوٹے بیٹے حسن نواز اور وزیراعظم کے سمدھی اور وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار بھی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوئے تھے۔
اس معاملے کی عدالت عظمیٰ میں ہونے والی سماعت کے دوران شریف خاندان کے وکیل نے قطر کے سابق وزیراعظم شہزادہ شیخ حماد بن جاسم الثانی کا ایک خط پیش کیا تھا جس میں شریف خاندان کے لندن میں واقع رہائشی فلیٹس سے متعلق بتایا گیا تھا کہ یہ کاروبار میں شراکت کے عوض ہونے والے منافع کے مد میں اس خاندان کے حوالے کیے گئے تھے۔
تحقیقاتی ٹیم کی طرف سے قطری شہزادے کے خط کو تفتیشی عمل میں شامل نہ کیے جانے پر بھی حکمران جماعت خاصی نالاں ہے اور منگل کو ہی وزیراعظم کے معاون خصوصی آصف کرمانی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اگر شہزادہ حماد کا بیان نہیں لیا جاتا تو تحقیقاتی رپورٹ کی ساکھ ان کے بقول متاثر ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ قطری شہزادے نے تحقیقاتی ٹیم سے سوالنامہ بھیجنے کی درخواست کی تھی تاکہ وہ بھی اس ضمن میں اپنے جوابات جمع کروا سکیں لیکن کرمانی کے بقول "جے آئی ٹی نے تحریراً شہزادے کو مطلع کیا کہ انھیں سوالنامہ نہیں بھیجا جا سکتا۔"
ادھر شائع شدہ اطلاعات کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے دو ارکان منگل کو قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچے تاکہ شہزادہ شیخ حماد بن جاسم سے سوالات پوچھ سکیں۔
عدالت عظمیٰ نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو دس جولائی تک اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔