امریکی شہر سالٹ لیک سٹی سے تقریباً 130 میل جنوب میں سائنس دان اور انجنیئرز زیر زمین ایک بہت بڑا غاربنانے پر کام کر رہے ہیں۔ اس طرح کے غاروں کو سائنس کی زبان میں نمک کا گنبد کہا جاتا ہے۔ یہ پہاڑوں کے اندر ایک بہت بڑا گنبد نما ہال ہوتا ہے جس کی دیواریں تہہ در تہہ چٹانوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔
سائنسدان ان غاروں کو شفاف اور دوبارہ استعمال کے قابل توانائی کو ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کے لیے نمک کے پہاڑوں کا ہی انتخاب کیوں کیا جا رہا ہے۔ کیا نمک توانائی کو زیادہ بہتر طور پر محٖفوظ رکھ سکتا ہے۔
اس کا سیدھا سادا جواب ہے اخراجات کی بچت۔ ایک ہزار میگا واٹ کے مساوی شفاف توانائی ذخیرہ کرنے کے لیے بہت بڑے سائز کے کنٹینر کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی دیواریں اتنی مضبوط ہوں کہ وہ ہائیڈورجن گیس کا دباؤ برداشت کر سکیں۔ اتنا بڑا کنٹینر بنانے پر کثیر اخراجات آتے ہیں۔ جب کہ نمک کی کان میں ہائیڈوجن کو ذخیرہ کرنا بہت سستا پڑتا ہے۔
ہوتا یوں ہے کہ پہاڑ کے جس حصے میں نمک زیادہ ہوتا ہے، وہاں ایک سرنگ کھود کر پانی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ نمک پانی میں حل ہو جاتا ہے اور صرف چٹانی دیواریں باقی رہ جاتی ہیں۔ اور وہاں ایک بہت بڑا غار بن جاتا ہے۔ پھر پانی میں سے بجلی گزاری جاتی ہے، جس سے وہ ہائیڈروجن اور آکسیجن گیسوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں گیسیں بڑے پیمانے پر مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ ہائیڈروجن کو اس غار میں ذخیرہ کر لیا جاتا ہے۔ جس سے ٹربائن چلا کر بجلی پیدا کی جاتی ہے۔
اس غار کو مستقبل طور پر ہائیڈروجن گیس پیدا کرنے اور اسے ذخیرہ کرنے کے کام میں لایا جاتا ہے۔ جب بھی مزید گیس کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں پانی داخل کر کے اور اس میں سے بجلی گزار کر ہائیڈروجن گیس پیدا کر لی جاتی ہے۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا کو آب و ہوا کی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے مسئلے کا شدت سے سامنا ہے جس کا تازہ ترین مظاہرہ جنگلات میں بھڑک اٹھنے والی آگ ہے، جس سے اس سال لاکھوں ایکٹر رقبے پر محیط جنگلات جل کر راکھ ہو گئے اور شہری املاک کے ساتھ ساتھ درجنوں انسانی جانوں کا بھی نقصان ہوا۔
کیلی فورنیا ریاست کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے شفاف اور دوبارہ قابل استعمال توانائی کی جانب بڑٖھ رہی ہے۔ اور ریاست چاہتی ہے کہ 2035 کے اختتام تک وہاں کی ساری ٹرانسپورٹ شفاف توانائی پر منتقل ہو جائے۔
اس منصوبے کے تحت کیلی فورنیا کو 2030 تک 25 گیگا واٹ شفاف توانائی کی ضرورت ہو گی جس کے لیے 8900 میگا واٹ توانائی کو ذخیرہ کرنے کے وسائل پیدا کرنے ہوں گے۔
ہائیڈروجن گیس شفاف توانائی کے حصول کا ایک سستا ذریعہ ہے۔ اس کے استعمال سے بہت ہی معمولی مقدار میں کاربن گیسوں کا اخراج ہوتا ہے، جس سے ماحول کو صاف رکھنے اور گلوبل وارمنگ پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔
ٹرانسپورٹ اور بجلی پیدا کرنے والے ٹربائن چلانے کے لیے ہائیڈروجن گیس کو ایک قابل عمل اور ارزاں متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
SEE ALSO: چینی آٹو کمپنی فوٹان دو لاکھ گرین انرجی گاڑیاں تیار کرے گیحالیہ عرصے میں مارکیٹ میں ہائیڈروجن کاریں آنا شروع ہو گئی ہیں، جو پٹرول کے مقابلے میں بہت سستی پڑتی ہیں۔ کئی کمپنیاں اب پٹرول پمپوں کی طرح ہائیڈروجن گیس کے فلنگ اسٹیشن بھی قائم کر رہی ہیں جس کے بعد آنے والے برسوں میں ہائیڈروجن گاڑیاں، بڑی حد تک معدنی تیل سے چلنے والی گاڑیوں کی جگہ لے لیں گی۔
ایڈوانس کلین انرجی سٹوریج پراجیکٹ کے تحت اس وقت ایک ہزار میگا واٹ شفاف توانائی ذخیرہ کرنے کے لیے نمک کے پہاڑ میں گنبد نما اسٹوریج تعمیر کیا جا رہا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ گھروں کو ایک سال تک ان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے۔
اس سے نہ صرف بجلی پیدا کرنے والے ٹربائن چلائے جا سکتے ہیں بلکہ گیس کو دباؤ کے تحت سیلنڈروں میں بھر کر گاڑیاں بھی چلائی جا سکتی ہیں، جو بیٹری سے چلنے والی گاڑیوں سے کہیں سستی پڑتی ہیں۔ کیونکہ یہ سیلنڈر لیتھیم آئن کی بیڑیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ سستے ہوتے ہیں۔
سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ اگلے دس سال میں گاڑیوں کے لیے ہائیڈروجن گیس کا کاروبار تقریباً پونے دو ٹریلن ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔
ماہرین کا تخمینہ ہے کہ سن 2050 تک توانائی کے ایک ذریعے کے طور پر ہائیڈروجن گیس کا کاروبار 11 ٹریلن ڈالر کی سطح کو چھو لے گا
امریکہ میں اس وقت ہائیڈروجن گیس کی سالانہ طلب 10 ملین میٹرک ٹن ہے جو امکانی طور پر 2050 میں 41 ملین میٹرک ٹن ہو جائے گی۔