اقوام متحدہ کے جوہری امور پر نظر رکھنے والے ادارے، بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجسی اور ایران کے درمیان آخری لمحوں میں ایک معاہدہ طے ہو گیا ہے جس کے تحت اب اقوام متحدہ کا ادارہ اپنے آلات کو ٹھیک کرکے، ایران کی یورینیم کی افزودگی سے متعلق نگرانی کا کام جاری رکھ سکے گا۔
ایران نے پہلے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا اور جوہری توانائی کا ادارہ اپنے 35 رکنی ادارے کے بورڈ آف گورنرز کا اس ہفتے اجلاس منعقد کرنے والا تھا اور مغربی طاقتیں اس اجلاس میں ایک قرارداد پیش کرنے کی دھمکی دے رہی تھیں، جس میں آئی اے ای اے کی راہ روکنے کے لئے ایران پر نکتہ چینی کی جاتی۔
اور یوں، ایران کے ساتھ اس جوہری معاہدے میں امریکہ کی دوبارہ شمولیت کے لئے ہونے والے مذاکرات میں اور بھی تاخیر ہو جاتی، جس سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ یک طرفہ طور پر الگ ہو گئے تھے۔ لیکن صدر بائیڈن نے برسر اقتدار آنے کے بعد اس میں واپسی کا عندیہ دیا تھا۔
بین الاقوامی امور کے ماہرین نے اس کا تجزیہ اپنے اپنے انداز میں کیا ہے۔
واشنگٹن میں قائم 'فارن پالیسی کونسل' کے نائب صدر ایلان برمن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے لئے اس قسم کا معاہدہ پی فائیو پلس ون ملکوں کو 'انگیج' رکھنے کے لیے ضروری تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایلان برمن نے کہا کہ ایران دنیا بھر کے لئے اس امید کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے کہ آخر کار اسکے اور ان قوتوں کے درمیان جن سے پہلے جوہری معاہدہ ہوا تھا ایک نیا معاہدہ ہو جائے گا۔ اس کام کو کرنے کے لئے اسے وقتاً فوقتآ ایسی رعایتیں دینی پڑتی ہیں جنہیں انہوں نے 'ٹیکٹیکل کنفیشنز' قرار دیا۔ اور جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے ساتھ یہ معاہدہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ اس معاہدے کو اس نظر سے نہیں دیکھتے کہ ایران نے اپنی سمت تبدیل کرلی ہے یا اپنے ارادے بدل لئے ہیں اور واقعی کوئی ٹھوس متبادل معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ بلکہ، وہ سمجھتے ہیں کہ ایران وہی کر رہا ہے جو وہ شروع سے کرتا آ رہا ہے کہ وقتی رعایتیں دے کر در پردہ اپنا کام جاری رکھے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اس معاہدے سے ایران کے ساتھ کسی جوہری معاہدے کے ان مذاکرات کی بحالی میں کوئی مدد ملے گی جو کئی ماہ سے تعطل کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے یورپی ملکوں اور روس اور چین جیسے ملکوں کو، جو ایران کے حامی ہیں، یہ کہنے کا جواز مل جائے گا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس مرحلے پر ایران کے خلاف تعزیرات عائد کی جائیں، کیونکہ بہرحال ایران اپنے جوہری پروگرام کے سلسلے میں مغرب کے ساتھ تعاون کے لئے کچھ نہ کچھ اقدامات تو کر رہا ہے۔
ایلان برمن نے کہا کہ انکے خیال میں ایران اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور اس کے مہلت حاصل کرنے کی کوشش کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ امید کر رہا ہے کہ اسے بائیڈن حکومت کی جانب سے شاید کسی بہتر معاہدے کی پیشکش ہو جائے جو اس کے مفاد میں ہو۔ کیونکہ، بقول ان کے، امریکی حکومت یہ عندیہ دے چکی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ معاہدے کے لئے دوسری تجاویز بھی دے۔ اور ایران یہ دیکھنے کا منتظر ہے کہ کونسی نئی تجاویز دی جاتی ہیں۔ اسی لئے یہ اشارے دے رہا ہے کہ وہ آگے بڑھنے کو تیار ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر زبیر اقبال کا تعلق واشنگٹن کے 'مڈ ایسٹ انسٹیٹیوٹ' سے ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے نے فیصلہ کیا تھا کہ اگر ایران نگرانی کرنے والے اسکے آلات کی درستگی ہر آمادہ نہیں ہوتا تو پھر وہ اپنے بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ میں اس حوالے سے ایک قرارداد منظور کرے گا، جس کی امریکہ اور یورپی ممالک حمایت کر رہے تھے، جبکہ روس اور چین اس کے خلاف تھے۔ یہ ایران کے لئے ایک اچھی صورت حال نہ ہوتی اسلئے یہ معاہدہ ہو گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک عبوری فیصلہ ہے اس کے علاوہ بنیادی طور پر اس کے اثرات امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات پر اس وقت تک کچھ نہیں ہوں گے، جب تک کہ دونوں معطل مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامند نہ ہو جائیں۔
ایک سوال کے جواب انہوں نے کہا کہ روس اور چین سے قطع نظر، مغربی ممالک یقیناً امریکہ سے الگ ہو کر آگے بڑھنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔
اس سوال کے جواب میں کہ ایران میں ایک انتہائی نوعیت کی قدامت پسند حکومت کے ہوتے ہوئے کیا مذاکرات بحال ہوسکتے ہیں، ڈاکٹر زبیر اقبال نے کہا کہ جو بنیادی سیاق و سباق ہے وہ یہ ہے کہ چاہے ایران میں کسی بھی نوعیت کی حکومت ہو اس کو ہر حالت میں کسی نہ کسی طریقے سے جوہری معاہدے کی جانب جانا ضروری ہے۔ ورنہ ان کے لئے مسائل پیدا ہوں گے جو وہ نہیں چاہتے۔