افغانستان میں امن وامان کی خراب صورتحال اور آئے روز شدت پسندوں کی پرتشدد واقعات کے علاوہ ان کے خلاف نیٹو اور افغان افواج کی کارروائیوں میں ہلاک و زخمی ہونے والے عام شہریوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ بہت سے زخمی ابتدائی طبی امداد نہ ملنے اور متحارب جھڑپوں کی وجہ سے ہسپتال تک نہ پہنچنے کے باعث موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اس تناظر میں عالمی امدادی ادارے آئی سی آرسی نے لوگوں کو ابتدائی طبی امداد کی تربیت دینا شروع کی ہے جس کے تحت شورش زدہ علاقوں میں سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کے علاوہ طالبان باغیوں کو بھی زخمیوں کی ابتدائی دیکھ بھال سے آگاہ کیا جارہا ہے۔
آئی سی آر سی کے مطابق اپریل کے مہینے میں ایک سو سے زائد افغان سکیورٹی اہلکاروں ، 70سے زائد مسلح مزاحمت کاروں اور مریضوں کو ہسپتال پہنچانے والے ٹیکسی ڈرائیوروں کو ابتدائی طبی امداد کی تربیت اور آلات فراہم کیے۔
علاوہ ازیں آئی سی آر سی کا کہنا ہے کہ اس کے کارکنوں نیٹو ،امریکی اور افغان حکام کی حراست میں موجود قیدیوں کی صورتحال معلوم کرنے کے لیے مختلف قید خانوں کا دورہ کرتے رہتے ہیں اور گذشتہ سال سے انھوں نے طالبان جنگجوؤں کے قید خانوں کابھی دورہ کرنا شروع کیا ہے۔
ایک روز قبل ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے کہا تھا کہ افغانستان کی جنگ ملک میں طبی خدمات پر برے اثرات ڈال رہی ہے،ایسے میں جب متعدد لوگوں کو ہنگامی طبی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں۔ عالمی ادارے کے مطابق تنازع سے براہ راست متاثرہ علاقوں میں لڑائی، بارودی سرنگوں اور بند سڑکوں کے باعث متعدد لوگوں کا ہسپتال تک پہنچنا بھی ایک دشوار امر ہے۔
امدادی ادارے نے ایک ٹیکسی ڈرائیور کا حوالہ دیا جو روزانہ جنوبی صوبے ہلمند کے ضلع سنگین سے زخمیوں کو ہمسایہ صوبہ قندھار میں ریڈ کراس کی امداد سے چلنے والے ایک ہسپتال لے جایا کرتا ہے۔ ڈرائیور کا کہنا ہے تھا کہ تشدد اور عدم سلامتی کے باعث دو گھنٹوں کی مسافت سات گھنٹے طویل ہوجاتی ہے۔
خیال رہے کہ 2001ء میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے افغانستان میں آمد کے بعد سے مختلف واقعات میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں کے حوالے سے گذشتہ سال سب سے زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہوا جس میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دو ہزار سے زائد افغان شہری ہلاک ہوئے۔ رواں سال اب تک ہونے والی شہری ہلاکتوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ گذشتہ سال اسی عرصے میں ہونے والی ہلاکتوں سے 33فیصد زیادہ ہیں۔