بھارتی سپریم کے سابق جج جسٹس اے کے گنگولی نے بابری مسجد کے بارے میں بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کی طرف سے دیے گئے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ آج اس کیس کے جج ہوتے تو بابری مسجد کو دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم دیتے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ حکم دیتے کہ اس کی جگہ ہسپتال، کالج یا یونیورسٹی جیسی کوئی غیر مذہبی عمارت تعمیر کی جائے۔
نئی دہلی میں فاؤنڈیشن فار انڈی پینڈنٹ جرنلزم (FIJ) کی طرف سے شائع ہونے والی نیوز ویب سائٹ ’دا وائر‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج گنگولی نے کہا کہ اس فیصلے سے سپریم کورٹ نے بابری مسجد کو مسمار کرنے کے جرم کو جائز قرار دے دیا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رانجن گوگوئی کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے متفقہ فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی محکمہ آثار قدیمہ نے اپنی تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ سولہویں صدی کی اس مسمار شدہ مسجد کی جگہ پہلے ایک عمارت موجود تھی جو اسلامی نہیں تھی۔ لہذا، سپریم کورٹ نے 2.77 ایکڑ پر مشتمل یہ زمین ہندو انتہا پسند تنظیم وشوا ہندو پریشد کے حوالے کر دی ہے تاکہ وہ اس کی جگہ رام مندر تعمیر کرائے۔
جسٹس گنگولی نے سوال کیا کہ اگر بابری مسجد مسمار نہ کی جاتی اور وہ موجود ہوتی اور ہندو سپریم کورٹ میں مقدمہ لے کر جاتے کہ اس جگہ رام بھگوان کی پیدائش ہوئی تھی تو کیا بھارتی سپریم کورٹ بابری مسجد کو مسمار کرنے کا حکم دیتی؟
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح سپریم کورٹ نے بابری مسجد کو مسمار کیے جانے کو جائز قرار دے دیا ہے۔
جسٹس گنگولی نے انٹرویو میں اصرار کیا کہ بھارتی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ قطعی طور پر غلط ہے کیونکہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ اس مسجد کی جگہ کبھی کوئی ہندو عمارت موجود تھی۔
انہوں نے کہا کہ کیا اس جگہ کی ملکیت کا فیصلہ یکطرفہ طور پر کسی ایک فریق کے مذہب کے حق میں کیا جا سکتا ہے؟
امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ میں اخبار کے جنوبی ایشیا بیورو کے رپورٹر کائی شلز کا مضمون شائع ہوا ہے ۔ جس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے بھارت میں مسلمان اور دیگر اقلیتی برادریوں میں پائے جانے والے ان خدشات کو ہوا ملتی ہے کہ وزیر اعظم مودی کے کچھ قوم پرست حامی ملک کی سیکولر بنیادوں کو کمزور کر رہے ہیں ۔ اس سے ان لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں جو ہندو مذہب سے انتہا درجے کی وفاداری کا اظہار نہیں کرتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مضمون نگار نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں تین صحافیوں سوربھی سنگھ، سوہاسنی راج اور کریتیکا سونی کی فراہم کردہ معلومات بھی شامل کی ہیں۔
مضمون نگار نے لکھا ہے کہ بھارت میں ہندو راشٹرا اور ہندو مذہبی برتری کی ترویج کیلئے پاپ موسیقی اور رقص کا سہارا لیا جارہا ہے ۔ ایک پاپ گلوکارہ لکشمی دوبے کے کنسرٹ تیزی مقبول ہو رہے ہیں جن کے گیتوں میں ہندتوا کی زور دار انداز میں تشہیر کی جا رہی ہے۔ ان کے بعض گیتوں میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تمام ہندوستان کیسری رنگ کا ہو گا یعنی بھارت مکمل طور پر ایک ہندو ریاست ہو گی۔ ان کے بعض گیتوں میں کھلے عام ہندو مذہب کو نہ ماننے والوں کو قتل کرنے، انہیں زبردستی ہندو بنانے اور پاکستان کی مخالفت میں جملے شامل ہوتے ہیں۔مضمون نگار کے مطابق، جب 30 سالہ دوبے ایسے گیت گاتی ہیں تو لوگ انہیں بے حد پسند کرتے ہیں۔
مضمون کے مطابق، ہندو تہواروں کے موقعوں پر ہندوؤں کے جلوس مسلمان آبادی والے محلوں میں جا کر ایسے گیتوں کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔
دوبے نے نیو یارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا مقصد ایسے ’فٹ سولجرز‘ کو بھرتی کرنا ہے جو بھارت کو مکمل طور پر ایک ہندو ملک بنا سکیں۔
گلوکارہ کے بقول، ہندو اس قدر معصوم اور کمزور رہے ہیں کہ یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ مسلمان ان کیلئے بڑا خطرہ ہیں اور اب وہ ہندوؤں کو جگانے کا عزم لیے سامنے آئی ہیں۔ بھارت کی ایک ریاست کے عہدیدار، جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے، دوبے کے کنسرٹ کے اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کرنے کا اعتراف کر چکی ہے۔
مضمون نگار کے مطابق، اس روش سے بھارت میں ہجوم کی طرف سے غیر ہندو افراد کے قتل کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان میں گاؤ رکھشا کے نام پر ہونے والے ہجوم کی طرف سے حملے خاص طور پر شامل ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ بھارت میں قصائی عام طور پر مسلمان یا نچلی ذات کے ہندو ہوتے ہیں اور انہیں ایسے حملوں کا سامنا رہتا ہے۔
”ایک اور ہندوتوا پاپ گلوکار سنجے فیض آبادی اپنے گیتوں میں اکثر پاکستان مخالف جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن ’نیو یارک ٹائمز‘ کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے گیتوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ تشدد کو فروغ دے رہے ہیں۔ لیکن، بقول ان کے، ایسا نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ وزیر اعظم مودی کے وفادار ہیں لیکن وہ کسی کے مخالف نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ ان پر ہندتوا کا لیبل لگا سکتے ہیں، لیکن وہ ان سے نفرت نہیں کرتے جو ہندتوا کو فروغ نہیں دیتے۔
مضمون نگار کے مطابق، بھارت کے ایک روایتی طرز کے معروف گلوکار ٹی ایم کرشنا کہتے ہیں کہ نفرت کو مذہب کے ساتھ جوڑے جانے کی روایت عام ہو گئی ہے ۔نقاب ہٹ گیا ہے اور جو ہم دیکھ رہے ہیں، اس سے ہمیں بےحد پریشانی ہونی چاہئے۔
واشنگٹن میں بعض بھارتی نژاد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نریندرا مودی نے بھارت کو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔۔لیکن ان وجوہات کے لئے نہیں، جن کی وجہ سے وہ توجہ دلوانے کے خواہش مند رہے ہونگے۔