جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ حکومت مخالف آزادی مارچ کے دوران اسمبلیوں سے متحدہ اپوزیشن کے اراکین کے اجتماعی استعفوں کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر متحدہ اپوزیشن اسمبلیوں سے استعفے کا فیصلہ کرتی ہے تو ملک میں سیاسی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ 2014 میں حکومت مخالف احتجاج کے دوران تحریکِ انصاف کے ارکان نے اسپیکر قومی اسمبلی کو اپنے استعفے جمع کرائے تھے۔
لیکن اسمبلی قواعد و ضوابط کے مطابق ہر مستعفی رکن کو اسپیکر قومی اسمبلی کے سامنے ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر استعفے کی توثیق کرنا تھی جس سے تحریکِ انصاف کے ارکان گریزاں رہے تھے۔
اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کے اراکین استعفے دینے میں سنجیدہ نہیں ہیں جب کہ استعفے دینے کے باوجود بھی تنخواہوں اور مراعات لینے پر بھی پی ٹی آئی کے اراکین تنقید کا سامنا کرتے رہے تھے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2014 میں تحریکِ انصاف کے محض 34 اراکین تھے جن کے استعفے اگر منظور بھی ہو جاتے تو ان کے حلقوں میں ضمنی الیکشن کرانا ممکن تھا۔ لیکن موجودہ حزبِ اختلاف کے قومی اسمبلی میں ارکان کی تعداد 150 سے زائد ہے اور اگر وہ مستعفی ہو گئے تو صورتِ حال پیچیدہ ہو جائے گی۔
قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن
پاکستان تحریکِ انصاف کو قومی اسمبلی میں 181 اراکین کی حمایت حاصل ہے جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کی تعداد 156 کے لگ بھگ ہے۔
اپوزیشن کے اجتماعی استعفوں سے متعلق پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما پلوشہ خان کا کہنا ہے کہ متحدہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کا جو بھی فیصلہ ہوگا، اپوزیشن کی کوئی جماعت بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔
اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں سے متعلق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی پرویز ملک کہتے ہیں کہ اس تجویز پر ابھی تک مسلم لیگ (ن) نے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔
سینئر تجزیہ کار ایاز امیر کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن گھاک سیاست دان ہیں اور استعفوں کی دھمکی دے کر حکومت کو پریشان کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول اپوزیشن جماعتیں استعفوں پر متفق نہیں ہوں گی۔ مولانا فضل الرحمن کا مقصد صرف حکومت کو دباؤ میں لانا ہے۔
ایاز امیر کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی والے سیاسی میدان کے پرانے کھلاڑی ہیں اور بمشکل مولانا کے احتجاج میں شامل ہو رہے ہیں۔
حکومت کی طرف سے آزادی مارچ کی مشروط اجازت دیے جانے پر پلوشہ خان کا کہنا ہے کہ لفظ مشروط میں ہی سارا 'ہیر پھیر' ہے۔ ان کے بقول آئین و قانون میں کسی قسم کے احتجاج کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
پرویز ملک کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے ابھی آزادی مارچ کی مشروط اجازت دی گئی ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ مارچ شروع ہونے پر حکومت کیا حکمتِ عملی اختیار کرتی ہے۔
ایاز امیر کہتے ہیں کہ حکومت نے آزادی مارچ کی اجازت دے کر دانش مندانہ فیصلہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ جمعیت علماءِ اسلام (ف) نے 27 اکتوبر کو کراچی سے آزادی مارچ شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے مطابق آزادی مارچ 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہو گا جس میں اپوزیشن کی دیگر جماعتیں بھی ان کے ہمراہ ہوں گی۔
مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مذاکرات کے لیے وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے مذاکراتی کمیٹی بھی بنائی تھی۔ تاہم جمعیت علماء اسلام کا موقف ہے کہ جب تک وزیرِ اعظم مستعفی نہیں ہوتے اس وقت تک مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔