وزیر اعظم علی زائدان نے ایک اخباری کانفرنس کو بتایا ہے کہ لیبیا کے ایک چوٹی کے سابق جنرل کا اُن کی حکومت اور عمل دار قومی اسمبلی کو سبوتاژ کرنے کا اعلان ’غیر قانونی ہے‘
واشنگٹن —
لیبیا کے وزیر اعظم علی زائدان نےجمعے کے روز کہا ہے کہ اُن کی حکومت اور قومی اسمبلی نے ملک کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہے۔
وزیر اعظم نے چوٹی کے ایک سابق جنرل پر نکتہ چینی کی، جنھوں نے، بقول اُن کے، ’تختہ الٹنے‘ سے متعلق بیان دیا، جو دراصل ایک نئی حکمرانی کے ڈھانچے کے مجوزہ ’نظام الاوقات‘ کا اعلان ہے۔
قاہرہ سے ’وائس آف امریکہ‘ کے نامہ نگار، ایڈورڈ یرانیان نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ جب لیبیا کی فوج کے چیف آف اسٹاف، عبدالسلام العبیدی نے اعلان کیا کہ لیبیا کی صورت حال میں خاموشی ہے اور یہ کہ فوج نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا، تو ایک چھوٹے سے ہجوم نے نعرے بلند کیے۔
اُنھوں نے کہا کہ اُن کی فوجیں بغاوت کی کسی کوشش کو روکیں گی اور انقلاب کے اصولوں کی انحرافی کی کسی کوشش کو روکا جائے گا۔ اُنھوں نے زور دے کر کہا، فوج سیاست سے علیحدہ رہے گی۔
جمعے کے روز وزیر اعظم علی زائدان نے ایک اخباری کانفرنس کو بتایا کہ لیبیا کے ایک چوٹی کے سابق جنرل کا اُن کی حکومت اور حکمراں قومی اسمبلی کو تبدیل کرنے کا اعلان غیر قانونی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ لیبیا کے عوام کو یہ یقین دہانی کرانا چاہیں گے کہ قومی اسمبلی اپنی جگہ قائم ہے اور اپنے فرائض پر عمل درآمد کو جاری رکھا ہوا ہے، اور یہ کہ اُن کی حکومت عام معمولات کے مطابق اپنے فرائض منصبی انجام دے رہی ہے۔ اُنھوں نے زور دے کر کہا کہ ملک کی صورتِ حال کنٹرول میں ہے اور سب ٹھیک ٹھاک ہے۔
ریٹائرڈ جنرل خلیفہ حفطار نے جمعے کو علی الصبح اُس وقت ایک طوفان کھڑا کر دیا، جب عربیہ ٹیلیوژن نے ایک وڈیو بیان نشر کیا جس میں اُنھوں نے ایک نئی حکومت کے لیے ’روڈ میپ‘ پیش کیا۔
اُن کے منصوبے میں، لیبیا کے اعلیٰ جج سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ صدارت کا عہدہ سنبھالیں، جس کے بعد نئے انتخابات کرائے جائیں اور ایک نیا آئین مرتب کیا جائے۔ وزیر اعظم زائدان نے جنرل پر ’بغاوت کے مترادف بیان‘ دینے کا الزام لگایا۔
کچھ روز قبل، لیبیا کی قومی اسمبلی نے اُس وقت ایک تاریخ رقم کی جب اُس نے اپنے سرکاری مینڈیٹ میں اضافہ کیا، جو رائے عامہ کے خلاف ہے۔ اسمبلی کے ایک قانون منظور کرتے ہوئے ملک کے قانون ساز، عدالتی اور انتظامی شعبہ جات کی کھل کر بے توقیری کو غیر قانونی قرار دیا۔
سابق وزیر اعظم محمود جبریل نے ’اسکائی نیوز عربیہ‘ کو بتایا کہ ملک میں تناؤ کی صورتِ حال کی ذمہ داری قومی اسمبلی پر عائد ہوتی ہے۔ اُنھوں نے زور دے کر کہا کہ پرانے زمانے کے طور طریقے کے برعکس (جیسا کہ معزول لیڈر معمر قذافی کے وقت تھا)، آج کے لیبیا میں کوئی بھی کسی من مانی کی طاقت نہیں رکھتا۔
وزیر اعظم نے چوٹی کے ایک سابق جنرل پر نکتہ چینی کی، جنھوں نے، بقول اُن کے، ’تختہ الٹنے‘ سے متعلق بیان دیا، جو دراصل ایک نئی حکمرانی کے ڈھانچے کے مجوزہ ’نظام الاوقات‘ کا اعلان ہے۔
قاہرہ سے ’وائس آف امریکہ‘ کے نامہ نگار، ایڈورڈ یرانیان نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ جب لیبیا کی فوج کے چیف آف اسٹاف، عبدالسلام العبیدی نے اعلان کیا کہ لیبیا کی صورت حال میں خاموشی ہے اور یہ کہ فوج نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا، تو ایک چھوٹے سے ہجوم نے نعرے بلند کیے۔
اُنھوں نے کہا کہ اُن کی فوجیں بغاوت کی کسی کوشش کو روکیں گی اور انقلاب کے اصولوں کی انحرافی کی کسی کوشش کو روکا جائے گا۔ اُنھوں نے زور دے کر کہا، فوج سیاست سے علیحدہ رہے گی۔
جمعے کے روز وزیر اعظم علی زائدان نے ایک اخباری کانفرنس کو بتایا کہ لیبیا کے ایک چوٹی کے سابق جنرل کا اُن کی حکومت اور حکمراں قومی اسمبلی کو تبدیل کرنے کا اعلان غیر قانونی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ لیبیا کے عوام کو یہ یقین دہانی کرانا چاہیں گے کہ قومی اسمبلی اپنی جگہ قائم ہے اور اپنے فرائض پر عمل درآمد کو جاری رکھا ہوا ہے، اور یہ کہ اُن کی حکومت عام معمولات کے مطابق اپنے فرائض منصبی انجام دے رہی ہے۔ اُنھوں نے زور دے کر کہا کہ ملک کی صورتِ حال کنٹرول میں ہے اور سب ٹھیک ٹھاک ہے۔
ریٹائرڈ جنرل خلیفہ حفطار نے جمعے کو علی الصبح اُس وقت ایک طوفان کھڑا کر دیا، جب عربیہ ٹیلیوژن نے ایک وڈیو بیان نشر کیا جس میں اُنھوں نے ایک نئی حکومت کے لیے ’روڈ میپ‘ پیش کیا۔
اُن کے منصوبے میں، لیبیا کے اعلیٰ جج سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ صدارت کا عہدہ سنبھالیں، جس کے بعد نئے انتخابات کرائے جائیں اور ایک نیا آئین مرتب کیا جائے۔ وزیر اعظم زائدان نے جنرل پر ’بغاوت کے مترادف بیان‘ دینے کا الزام لگایا۔
کچھ روز قبل، لیبیا کی قومی اسمبلی نے اُس وقت ایک تاریخ رقم کی جب اُس نے اپنے سرکاری مینڈیٹ میں اضافہ کیا، جو رائے عامہ کے خلاف ہے۔ اسمبلی کے ایک قانون منظور کرتے ہوئے ملک کے قانون ساز، عدالتی اور انتظامی شعبہ جات کی کھل کر بے توقیری کو غیر قانونی قرار دیا۔
سابق وزیر اعظم محمود جبریل نے ’اسکائی نیوز عربیہ‘ کو بتایا کہ ملک میں تناؤ کی صورتِ حال کی ذمہ داری قومی اسمبلی پر عائد ہوتی ہے۔ اُنھوں نے زور دے کر کہا کہ پرانے زمانے کے طور طریقے کے برعکس (جیسا کہ معزول لیڈر معمر قذافی کے وقت تھا)، آج کے لیبیا میں کوئی بھی کسی من مانی کی طاقت نہیں رکھتا۔