عبوری وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک "اقتصادی اور معاشی دیوالیہ پن" کی نہج پر پہنچ چکا ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ 'آئی ایم ایف' نے یوکرین کو 18 ارب ڈالر تک قرض دینے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس کے بدلے اس ملک کو سخت اقتصادی اصلاحات کرنا ہوں گی۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اس کی طرف سے 14 سے 18 ارب ڈالر رقم کی یوکرین کو فراہمی بین الاقوامی برادری کی جانب سے اس ملک کو دی جانے والی رقم کا حصہ ہو گی، اور اس سے مجموعی طور پر آئندہ دو برسوں کے لیے یوکرین کو دی جانے والی رقم 27 ارب ڈالر ہو جائے گی۔
یوکرین کے وزیراعظم ارسینی یتسنیوک نے جمعرات کو پارلیمنٹ کو بتایا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے بتائی گئی اصلاحات نہ کی گئیں تو یوکرین کی اقتصادیات میں رواں سال 10 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک "اقتصادی اور معاشی دیوالیہ پن" کی نہج پر پہنچ چکا ہے۔
جمعرات کو عالمی مالیاتی فنڈ کے بیان میں کہا گیا کہ یوکرین کی حالیہ اقتصادی پالیسیوں سے شرح نمو ڈرامائی انداز میں سست رہی اور ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر "تشویشناک حد تک کم سطح" پر پہنچ گئے۔
آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ یوکرین اپنے زرمبادلہ کی قدر میں لچک، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور توانائی کی بڑی کمپنی نافٹو گاز میں ادارہ جاتی تبدیلیاں کرے۔
ان اصلاحات سے عوام پر شدید اثرات مرتب ہوں گے جس سے عبوری حکومت کے لیے ان کی حمایت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اس کی طرف سے 14 سے 18 ارب ڈالر رقم کی یوکرین کو فراہمی بین الاقوامی برادری کی جانب سے اس ملک کو دی جانے والی رقم کا حصہ ہو گی، اور اس سے مجموعی طور پر آئندہ دو برسوں کے لیے یوکرین کو دی جانے والی رقم 27 ارب ڈالر ہو جائے گی۔
یوکرین کے وزیراعظم ارسینی یتسنیوک نے جمعرات کو پارلیمنٹ کو بتایا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے بتائی گئی اصلاحات نہ کی گئیں تو یوکرین کی اقتصادیات میں رواں سال 10 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک "اقتصادی اور معاشی دیوالیہ پن" کی نہج پر پہنچ چکا ہے۔
جمعرات کو عالمی مالیاتی فنڈ کے بیان میں کہا گیا کہ یوکرین کی حالیہ اقتصادی پالیسیوں سے شرح نمو ڈرامائی انداز میں سست رہی اور ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر "تشویشناک حد تک کم سطح" پر پہنچ گئے۔
آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ یوکرین اپنے زرمبادلہ کی قدر میں لچک، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور توانائی کی بڑی کمپنی نافٹو گاز میں ادارہ جاتی تبدیلیاں کرے۔
ان اصلاحات سے عوام پر شدید اثرات مرتب ہوں گے جس سے عبوری حکومت کے لیے ان کی حمایت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔