بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا 24 رکنی بورڈ عالمی مالیاتی بحران سے متاثر ہونے والے ملکوں کے لیے اربوں ڈالر کے قرضوں کی منظوری دیتا ہے ۔ اس بورڈ کی ایک تہائی سیٹیں یورپی ملکوں کے پاس ہیں۔ ان ملکوں میں بیلجیم اور دی نیدر لینڈز جیسے چھوٹے چھوٹے ملک بھی شامل ہیں۔ توقع ہے کہ یہ صورت حال جلد ہی تبدیل ہو جائے گی۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے ، بورڈ میں ترقی پذیر ملکوں کے اثر و رسوخ میں اضافہ کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے اور یورپ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ اپنی کچھ نشستیں دوسرے ملکوں کو دے دے۔ ایکشن ایڈ انٹرنیشنل کے کو آرڈینیٹر ، Soren Ambrose کہتے ہیں کہ شروع میں ایگزیکٹو بورڈ میں صرف 20 نشستیں ہوتی تھیں، اور ان کی تعداد 24 کرنے کے سمجھوتے کی ہر دو برس بعد تجدید کرانا ضروری ہے ۔ امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اس سمجھوتے کی تجدید پر اس وقت تک تیار نہیں ہو گا جب تک کہ یورپی ممالک بورڈ میں اپنی نمائندگی میں تبدیلی پر رضامند نہیں ہو جاتے۔
ایمبروز کہتے ہیں کہ اگر اکتوبر کے آخر تک فیصلہ نہیں کیا جاتا، تو بورڈ کے ارکان کی تعداد کم ہو جائے گی۔’’اگر کوئی اقدام نہیں کیا جاتا تو ہم خود بخود بورڈ میں چار نشستیں کھو دیں گے اور یہ ان چار ملکوں کی نشستیں ہوں گی جن کی ووٹنگ پاور سب سے کم ہے، یعنی، بھارت، برازیل اور ارجنٹائن۔ یہ تمام ممالک G20 کے رکن ہیں جن کے پاس یہ کہنے کی معقول وجوہ موجود ہیں کہ ہم اہم ہیں اور بورڈ میں ہماری نمائندگی ہونی چاہیئے ۔ بورڈ میں چوتھی نشست افریقہ کے زیریں صحارا کے ملکوں کے پاس ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے لیے یہ غیر دانشمندانہ بات ہو گی کہ افریقہ کے ملکوں کو الگ کر دیا جائے جو گذشتہ 30 برس سے باقاعدگی سے مسلسل قرضے لیتے رہے ہیں۔‘‘
ایمبروز کہتے ہیں کہ جو بھی اصلاحات کی جائیں گی ان سے غریب ترین ملکوں کو نہیں بلکہ درمیانی سطح کی آمدنی والے ملکوں جیسے ترکی اور فلپائن کو فائدہ ہو گا کیوں کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے بورڈ میں ووٹوں کی تقسیم میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ عالمی معیشت میں اس ملک کی حیثیت کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ بورڈ میں دنیا کے سب سے کم ترقی یافتہ ممالک کی آواز بہت ہی کم ہے اور مستقبل میں جو اصلاحات ہوں گی ان سے یہ آواز اور زیادہ کمزور ہو جائے گی۔
24 رکنی بورڈ میں درمیانے درجے کی آمدنی والے ملکوں میں تھائی لینڈ، مصر، ایران اور بھارت شامل ہیں۔ایمبروزکا کہنا ہے کہ ایکشن ایڈ کی تنظیم اس بات کو ترجیح دے گی کہ کسی ملک کا ووٹ دینے کا اختیار اس ملک کی آبادی پر اور اس امداد پر منحصر ہو جو اس ملک نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو قرضوں کی ادائیگی کے ذریعے دی ہے ۔
ایک اور چیز جو زیرِ بحث آئے گی وہ یہ ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کو قرضوں کی فراہمی کو بہتر بنایا جائے اور ایک گلوبل سٹیبلائزیشن میکنیزم قائم کیا جائے ۔ اس سسٹم کے تحت عالمی اقتصادی نظام کی تباہی کے حالات پیدا ہونے کی صورت میں، بہت سے ملکوں کو مختصر نوٹس پر فوری طور پر بہت بڑی رقم فراہم کر دی جائے گی۔
توقع ہے کہ میٹنگ کے شرکاء اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے طریقوں پر بھی تبادلۂ خیال کریں گے ۔ بعض ممالک اپنی اقتصادی ترقی کو تیز کرنے کے لیے اپنی کرنسی کی قدر کم کرنے کا طریقہ استعمال کر رہےہیں تا کہ ان کی بر آمدات سستی ہو جائیں۔ لیکن بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ڈائریکٹر، Dominique Strauss-Kahn کہتے ہیں کہ اگر زر مبادلہ کی شرحیں کم کرنے کی دوڑ شروع ہو گئی تو اس سے عالمی معیشت عدم استحکام کا شکار ہو سکتی ہے ۔ کانفرنس میں یہ بات بھی زیرِ بحث آئے گی کہ کیا بین الاقوامی برادری کو اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ، اپنی معیشت میں جان ڈالنے کے لیے ٹیکس ادا کرنے والوں کا پیسہ استعمال کرنا چاہیئے اور روزگار فراہم کرنا چاہیئے ، یا انہیں سرکاری اخراجات میں کمی اور قرضوں کی ادائیگی سے، پرائیویٹ سیکٹر میں ترقی کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے ۔
اس ہفتے کی تقریروں اور مباحثوں سے نئے تصورات اور نئی تجاویز سامنے آئیں گی۔ایمبروز کہتے ہیں کہ یہ بات واضح نہیں ہے کہ کیا اس میٹنگ کے نتیجے میں کوئی اتفاق ِ رائے سامنے آئے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ارکان متفق نہیں ہوتے، تو بہت سے مسائل پر، جس میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے گورننس بورڈ میں اصلاحات شامل ہیں، نومبر میں جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں G20 کے ملکوں کی میٹنگ میں بحث جاری رہے گی۔