آفسٹیڈ کے انسپکٹر سر مائیکل ولشا کے بقول تارکینِ وطن خاندانوں کے برعکس سفید فام برطانوی والدین اپنے بچوں کو اسکول کے بعد ہوم ورک کرانے یا اس کی تعلیمی مصروفیات کے بارے میں لاعلم رہتے ہیں۔
لندن —
سفید فام محنت کش طبقے کی نسبت تارکین وطن خاندانوں میں بچوں کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
یہ بیان برطانیہ کے اسکولوں کے معاملات کی نگرانی کرنے والی تنظیم 'آفسٹیڈ' کے سربراہ نے جمعے کو دیا ہے۔
'میل آن لائن' کی رپورٹ میں 'آفسٹیڈ' کے انسپکٹر سر مائیکل ولشا نے سفید فام برطانوی گھرانوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تارکین وطن والدین یا نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے خاندانوں میں بچوں کی تعلیم وتربیت پر خصوصی اہمیت دی جاتی ہے لیکن سفید فام برطانوی والدین اپنے بچوں کو اسکول کے بعد ہوم ورک کرانے یا اس کی تعلیمی مصروفیات کے بارے میں لاعلم رہتے ہیں۔
ان کے بقول برطانوی معاشرے میں نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بچے گورے طالب علموں کی نسبت کلاس میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور سفید فام محنت کش طبقے کے بچوں کی تعلیمی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔
آفسٹیڈ کے سربراہ سر مائیکل نے اس بیان کے ساتھ ایک بار پھر سے برے والدین کے لیے جرمانے کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے والدین جو اسکول نہیں آتے ہیں یا اسکول کی پیرنٹ میٹنگ میں شرکت نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی بچے کے ہوم ورک میں مدد فراہم کرتے ہیں انھیں وہ برا والدین تصور کرتے ہیں۔ اسی لیے ہیڈ ٹیچر کے پاس ان پر جرمانہ عائد کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔
گزشتہ برس کی 'سینٹر فار سوشل جسٹس' کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ انگلینڈ کے اسکولوں میں بد ترین کارکردگی کا مظاہرہ دکھانے والے بچوں کا تعلق زیادہ تر سفید فام محنت کش طبقے سے ہے۔
مطالعے سے ظاہر ہوا کہ نسلی اقلیتوں - بلیک اور ایشین گھرانوں - کے 40 فیصد طالب علموں کی نسبت اس سماجی طبقے سے تعلق رکھنے والے گورے طالب علموں کی 26 فیصد تعداد میٹرک کے امتحانات میں ریاضی اور انگریزی کے مضامین میں اے اسٹار اور سی گریڈ لے کر پاس ہوئی۔
سر مائیکل کا کہنا تھا کہ جس طرح بچوں کو والدین کی توجہ کی ضرورت ہے بالکل اسی طرح اسکولوں کو بھی والدین کی جانب سے تعاون درکار ہے۔ اسی لیے وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے والدین جو بچوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتے ہیں ان کے خلاف پابندیاں عائد ہونی چاہئیں جس سے والدین کو یہ پیغام دیا جاسکتا ہے کہ بچے ان کی پہلی ذمہ داری ہیں جنھیں ان کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ برطانیہ بھر میں اسکولوں کے ہیڈ ٹیچر اور مقامی حکام کی جانب سے 16 برس تک لازمی تعلیم میں شرکت نہ کرنے والے بچوں کے والدین کے لیے 60 پونڈ جرمانے کی سزا مقرر کر رکھی ہے۔
یہ بیان برطانیہ کے اسکولوں کے معاملات کی نگرانی کرنے والی تنظیم 'آفسٹیڈ' کے سربراہ نے جمعے کو دیا ہے۔
'میل آن لائن' کی رپورٹ میں 'آفسٹیڈ' کے انسپکٹر سر مائیکل ولشا نے سفید فام برطانوی گھرانوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تارکین وطن والدین یا نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے خاندانوں میں بچوں کی تعلیم وتربیت پر خصوصی اہمیت دی جاتی ہے لیکن سفید فام برطانوی والدین اپنے بچوں کو اسکول کے بعد ہوم ورک کرانے یا اس کی تعلیمی مصروفیات کے بارے میں لاعلم رہتے ہیں۔
ان کے بقول برطانوی معاشرے میں نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بچے گورے طالب علموں کی نسبت کلاس میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور سفید فام محنت کش طبقے کے بچوں کی تعلیمی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔
آفسٹیڈ کے سربراہ سر مائیکل نے اس بیان کے ساتھ ایک بار پھر سے برے والدین کے لیے جرمانے کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے والدین جو اسکول نہیں آتے ہیں یا اسکول کی پیرنٹ میٹنگ میں شرکت نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی بچے کے ہوم ورک میں مدد فراہم کرتے ہیں انھیں وہ برا والدین تصور کرتے ہیں۔ اسی لیے ہیڈ ٹیچر کے پاس ان پر جرمانہ عائد کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔
گزشتہ برس کی 'سینٹر فار سوشل جسٹس' کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ انگلینڈ کے اسکولوں میں بد ترین کارکردگی کا مظاہرہ دکھانے والے بچوں کا تعلق زیادہ تر سفید فام محنت کش طبقے سے ہے۔
مطالعے سے ظاہر ہوا کہ نسلی اقلیتوں - بلیک اور ایشین گھرانوں - کے 40 فیصد طالب علموں کی نسبت اس سماجی طبقے سے تعلق رکھنے والے گورے طالب علموں کی 26 فیصد تعداد میٹرک کے امتحانات میں ریاضی اور انگریزی کے مضامین میں اے اسٹار اور سی گریڈ لے کر پاس ہوئی۔
سر مائیکل کا کہنا تھا کہ جس طرح بچوں کو والدین کی توجہ کی ضرورت ہے بالکل اسی طرح اسکولوں کو بھی والدین کی جانب سے تعاون درکار ہے۔ اسی لیے وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے والدین جو بچوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتے ہیں ان کے خلاف پابندیاں عائد ہونی چاہئیں جس سے والدین کو یہ پیغام دیا جاسکتا ہے کہ بچے ان کی پہلی ذمہ داری ہیں جنھیں ان کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ برطانیہ بھر میں اسکولوں کے ہیڈ ٹیچر اور مقامی حکام کی جانب سے 16 برس تک لازمی تعلیم میں شرکت نہ کرنے والے بچوں کے والدین کے لیے 60 پونڈ جرمانے کی سزا مقرر کر رکھی ہے۔