بہت سے سرگرم کارکنوں نے اس تحریک میں خاموش کردار ادا کیا۔ انہوں نے ایسے اُمور سرانجام دیئے جن کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں مگر تحریک میں ان کی کاوشوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
واشنگٹن —
پچاس برس قبل، لاکھوں افریقی امریکیوں نے نسلی تعصب کے خلاف امریکہ کے جنوبی حصے میں اُس تحریک کی طرح ڈالی جس نے امریکی تاریخ بدل ڈالی۔
60ء کے عشرے میں مارٹن لُوتھر کنگ نے اس تحریک کی قیادت کی۔ لیکن اس تحریک میں بے شمار لوگ ایسے تھے جنہوں نے قربانیاں دیں اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔
انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن ہولیس ویٹکنز کہتی ہیں کہ، ’حالات ہمارے لیے بہت سازگار نہیں تھے۔ اُس وقت تبدیلی کی ضرورت تھی۔ ایک ایسی تبدیلی جو بہتر مستقبل کی ضمانت دے۔‘
ہولیس ویٹکنز اور ان جیسے بہت سے سرگرم کارکنوں نے اس تحریک میں خاموش کردار ادا کیا۔ انہوں نے ایسے اُمور سرانجام دیئے جن کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں مگر تحریک میں ان کی کاوشوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بقول یہ تمام افراد شہری حقوق کی تحریک کے ’گمنام سپاہی‘ ہیں، جن کی کوششوں کی وجہ سے ہی امریکی معاشرے سے نسلی تعصب کا خاتمہ ممکن ہو سکا۔
رچرڈ کوہن، ’ساؤتھ پوورٹی لاء سنٹر‘ سے بطور اٹارنی وابستہ ہیں اور کہتے ہیں کہ، ’تاریخ صرف چند شخصیات کو یاد رکھتی ہے۔ جب ہم پیچھے مڑ کر تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم اس تحریک میں شریک سبھی افراد کی کوششوں کو قدرے فراموش کر دیتے ہیں جن کے بغیر اس تحریک کی کامیابی ممکن نہیں تھی۔‘‘
لوئی ٹکر بھی اس تحریک کے ایک ایسے ہی گمنام سپاہی ہیں اور ریاست مسّی سپّی میں ان لوگوں میں شامل تھے جن پر پولیس کے کتوں نے حملہ کیا تھا۔
لوئی ٹکر کے الفاظ، ’انہوں (پولیس) نے ہم پر اپنے کتے چھوڑ دئیے اور ہم نے اپنا دفاع دودھ کی بوتلوں سے کیا۔ مگر ہم نے اپنا راستہ نہیں چھوڑا۔‘
ڈِک مائلز اور شیرون مائلز کا شمار ان سفید فام افراد میں کیا جاتا ہے جنہوں نے افریقی امریکیوں کو ووٹ کا حق دلانے کے لیے 1963ء میں اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی شمولیت سے ان کو کئی خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ڈِک مائلز وہ وقت یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، ’اس وقت تشدد کی لہر جاری تھی اور ہمیں اس بارے میں دھمکیاں بھی دی جاتی تھیں۔ مگر میں نے اور شیرون (اہلیہ) نے اس سب کے باوجود اس تحریک کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس تحریک نے امریکی تاریخ کا رخ موڑ دیا تھا۔‘
60ء کے عشرے میں مارٹن لُوتھر کنگ نے اس تحریک کی قیادت کی۔ لیکن اس تحریک میں بے شمار لوگ ایسے تھے جنہوں نے قربانیاں دیں اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔
انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن ہولیس ویٹکنز کہتی ہیں کہ، ’حالات ہمارے لیے بہت سازگار نہیں تھے۔ اُس وقت تبدیلی کی ضرورت تھی۔ ایک ایسی تبدیلی جو بہتر مستقبل کی ضمانت دے۔‘
ہولیس ویٹکنز اور ان جیسے بہت سے سرگرم کارکنوں نے اس تحریک میں خاموش کردار ادا کیا۔ انہوں نے ایسے اُمور سرانجام دیئے جن کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں مگر تحریک میں ان کی کاوشوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بقول یہ تمام افراد شہری حقوق کی تحریک کے ’گمنام سپاہی‘ ہیں، جن کی کوششوں کی وجہ سے ہی امریکی معاشرے سے نسلی تعصب کا خاتمہ ممکن ہو سکا۔
رچرڈ کوہن، ’ساؤتھ پوورٹی لاء سنٹر‘ سے بطور اٹارنی وابستہ ہیں اور کہتے ہیں کہ، ’تاریخ صرف چند شخصیات کو یاد رکھتی ہے۔ جب ہم پیچھے مڑ کر تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم اس تحریک میں شریک سبھی افراد کی کوششوں کو قدرے فراموش کر دیتے ہیں جن کے بغیر اس تحریک کی کامیابی ممکن نہیں تھی۔‘‘
لوئی ٹکر بھی اس تحریک کے ایک ایسے ہی گمنام سپاہی ہیں اور ریاست مسّی سپّی میں ان لوگوں میں شامل تھے جن پر پولیس کے کتوں نے حملہ کیا تھا۔
لوئی ٹکر کے الفاظ، ’انہوں (پولیس) نے ہم پر اپنے کتے چھوڑ دئیے اور ہم نے اپنا دفاع دودھ کی بوتلوں سے کیا۔ مگر ہم نے اپنا راستہ نہیں چھوڑا۔‘
ڈِک مائلز اور شیرون مائلز کا شمار ان سفید فام افراد میں کیا جاتا ہے جنہوں نے افریقی امریکیوں کو ووٹ کا حق دلانے کے لیے 1963ء میں اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی شمولیت سے ان کو کئی خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ڈِک مائلز وہ وقت یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، ’اس وقت تشدد کی لہر جاری تھی اور ہمیں اس بارے میں دھمکیاں بھی دی جاتی تھیں۔ مگر میں نے اور شیرون (اہلیہ) نے اس سب کے باوجود اس تحریک کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس تحریک نے امریکی تاریخ کا رخ موڑ دیا تھا۔‘