پاکستان میں تیزی سے بڑھتی عالمی حدت زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہونے لگی ہے۔ یہاں تک کہ زراعت کا شعبہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہا اور ملکی زرعی پیداوار کو اس سے شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ترجمان محمد سلیم شیخ نے وی او اے کوبتایا کہ وزارت کے ماتحت ادارے ’گلوبل چینج امپیکٹ اسٹڈی سینٹر' نے ایک تحقیقی تجزیئے میں خبردار کیا ہے کہ آنے والے چند سالوں میں موسمیاتی تبدیلی کے ملکی زراعت اور پانی پر شدید منفی اثرات پڑسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات اور خوراک کو پورا کرنا مشکل ہوجائے گا۔ بھوک اور غذائی قلت جیسے مسائل میں شدت آسکتی ہے۔
تجزیاتی تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ چند سالوں کے دوران پاکستان کے درجہ حرارت میں ایک ڈگری کا اضافہ ہوجائے گا جس سے مختلف زرعی فصلوں کی پیداوار میں بڑی حد تک کمی ہوسکتی ہے ۔گرمی میں اضافے کے باعث گندم، چاول اور مکئی سمیت مختلف زرعی فصلوں کی آبپاشی کی ضروریات میں بہت زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ آنے والی دہائیوں میں فیصل آباد اور شیخو پورہ جیسے نیم خشک علاقوں میں گندم کی پیداوار میں 3٫4 فیصدسے زائد جبکہ حیدرآباد، بدین، بہاولپور اور ملتان میں 3٫8 فیصد سے زائد کمی ہوسکتی ہےجبکہ پھوٹوہار ریجن کے چکوال جیسے بارانی علاقوں میں گندم کی پیداوار میں 16 فیصد تک کمی ہوسکتی ہے۔
وزارتی ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحقیق واضح اشارہ کر رہی ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث ملکی سطح پر چاول کی پیداور میں 12 سے 22 فیصد تک کمی ہوسکتی ہے۔
علاوہ ازیں فصلوں کی کاشت کے دورانیے میں بھی بڑی حدت تک کمی ہوجائے گی۔ گندم اور چاول جیسی زرعی فصلیں جو اس وقت پانچ سے چھ مہینے میں تیار ہوجاتی ہیںآئندہ سالوں میں عالمی حدت کے باعث تین سے چار مہینوں میں تیار ہوجائیں گی۔ تاہم، ایسے زرعی فصلوں کی مجموعی پیداوار میں غیر معمولی کمی واقع ہوگی۔
درجہ حرارت میں اضافے کے منفی اثرات سے سبزیوں کو بھی نہیں بچایا جا سکے گا۔ ان پر مختلف زرعی کیڑوں کے حملوں میں غیر معمولی اضافہ ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں کیڑے مار دوائیوں کی مد میں کسانوں کے اخراجات میں کافی حد تک اضافہ ہوجائے گا۔
ترجمان نے تحقیقی رپورت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ زراعت معیشت میں ریڑ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ تاہم، اسے عالمی حدت کے منفی اثرات سے کسی حد تک بچانے کے لیے زرعی ٹیکنالوجی اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو برداشت کرنے والی مختلف زرعی اجناس کو کسانوں میں متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے جو کم آبپاشی اور خشک سالی سے دوچار علاقوں میں کاشت کی جاسکیں اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے اثرات کو برداشت کر سکیں۔
پانی کی دستیابی کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بارش کے پانی کو اکٹھا کرنے کے لیے مختلف علاقوں میں چھوٹے چھوٹے تالاب اور ڈیم بنائےہوں گے۔
زرعی سائنسدان اور ماہرین کاشتکاروں میں موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کے مختلف طریقوں سے آگاہی اور زرعی ٹیکنالوجی تک رسائی کے حوالے سے نہایت اہم کردار ادا کرسکتے ہیںلہذا ان ماہرین اور سائنسدانوں کی تعداد میں اضافے کی بھی اشد ضرورت ہے۔