امریکی سینیٹ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی کے دوران ری پبلکن ارکان نے سابق مشیر جان بولٹن کی طلبی کے ڈیموکریٹس کے مطالبے کی شدید مخالفت کی ہے۔
چیف جسٹس جان رابرٹس نے بدھ کو مواخذے کی کارروائی کا دوبارہ آغاز کیا تو ری پبلکن اور ڈیموکریٹ ارکان نے باری باری اپنے تحریری سوالات پیش کیے۔
مواخذے کی کارروائی کی سماعت کے دوران ڈیموکریٹس ارکان نے اس بات پر زور دیا کہ صدر ٹرمپ کے سابق مشیر جان بولٹن کو گواہی کے لیے طلب کیا جائے تاہم ری پبلکن نے اس مطالبے کی شدید مخالفت کی۔
جمعے کو اس بارے میں فیصلہ کن بحث ہوگی کہ گواہوں کو سنا جائے یا نہیں۔ ان میں صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی سے متعلق سابق مشیر جان بولٹن بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
جان بولٹن کی ممکنہ شہادت ان کی زیرِ طبع کتاب سے متعلق خبر سامنے آنے کے بعد اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ صدر ٹرمپ نے انہیں گزشتہ برس اگست میں بتایا تھا کہ انہوں نے یوکرین کی دفاعی امداد جو بائیڈن کے خلاف تفتیش کے اعلان کی شرط پر روکی ہے۔
جو بائیڈن ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے مضبوط صدارتی امیدوار ہو سکتے ہیں اور آئندہ الیکشن میں صدر ٹرمپ کے ممکنہ حریف ثابت ہو سکتے ہیں۔
چیف ڈیموکریٹک پراسیکیوٹر ایڈم شف نے کہا کہ جان بولٹن کی گواہی مواخذے کی کارروائی سے متعلق ہے اور شفاف تحقیقات کے لیے ان کی گواہی ضروری ہے۔
وائٹ ہاؤس کے وکیل پیٹرک فلپن نے ایڈم شف کے مطالبے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ڈیموکریٹک اکثریتی ایوانِ نمائندگان نے 18 دسمبر کو صدر کا مواخذہ کیا اور وہ اپنی متعصبانہ کارروائی کر چکے ہیں تو اس وقت جان بولٹن کو کیوں طلب نہیں کیا۔
SEE ALSO: مواخذے کی کارروائی: صدر ٹرمپ کے وکلا کی جو بائیڈن پر کڑی تنقیدانہوں نے کہا کہ جان بولٹن کی گواہی سیکیورٹی مسائل کا سبب بنے گی کیوں کہ وہ ملکی سلامتی کے مشیر رہ چکے ہیں اور ان کے پاس ملک کے خفیہ راز ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے وکیل کے دلائل کے بعد ایڈم شف نے جان بولٹن کی طلبی پر کہا کہ سینیٹ کو صدر ٹرمپ کی قسمت کا فیصلہ امریکی عوام پر چھوڑ دینا چاہیے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ امریکی تاریخ کے تیسرے صدر ہیں جنہیں مواخذے کی کارروائی کا سامنا ہے۔
صدر ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لیے اپنے ممکنہ حریف اور سابق نائب صدر جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کے لیے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی پر دباؤ ڈالا تھا۔
یاد رہے کہ جو بائیڈن کے صاحبزادے ہنٹر بائیڈن یوکرین کی گیس کمپنی کے بورڈ کا حصہ رہے ہیں اور صدر ٹرمپ پر الزام ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ یوکرین اس بات کی تحقیقات کرے کہ انہیں ملازمت جو بائیڈن کے اثر و رسوخ کی وجہ سے دی گئی۔
صدر ٹرمپ پر ایک اور الزام یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خلاف ہونے والی تحقیقات میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی۔
ری پبلکن پارٹی کے سینیٹرز کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ یوکرین کے ساتھ ’کچھ دو کچھ لو‘ کی پالیسی کی کوشش نہیں کر رہے تھے، جس کا ان پر الزام لگایا جاتا ہے۔
سینیٹ میں اکثریتی پارٹی کے قائد مچ مک کونل صدر ٹرمپ کے شدید حامی ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ اس ہفتے کے اختتام پر انہیں دونوں الزامات سے باعزت بری کر دیا جائے۔
لیکن منگل کو انھوں نے تسلیم کیا کہ ان کے پاس اتنے ووٹ نہیں کہ ڈیموکریٹس کے گواہوں کو طلب کرنے کے مطالبے کو روک سکیں۔ اس صورت میں کارروائی کا دورانیہ بڑھ جائے گا۔
سینیٹ میں ڈیموکریٹ پارٹی کے 47 ارکان جان بولٹن اور دیگر گواہوں کو سننا چاہتے ہیں۔ انھیں ری پبلکن پارٹی کے چار ارکان کی حمایت درکار ہے تاکہ انھیں ایوان میں اکثریت حاصل ہو سکے۔
جب سے بولٹن کی کتاب ’دی روم ویئر اٹ ہیپنڈ‘ میں یہ الزام سامنے آیا ہے، صدر ٹرمپ ان کے خلاف ہو گئے ہیں۔
منگل کی شام صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر کہا، ’’ڈیموکریٹس، چاہے آپ کتنے بھی گواہ پیش کریں، چاہے جو بھی معلومات پیش کریں، مثلاً من گھڑت مسودے پیش کریں، یہ کافی نہیں ہوں گے۔ وہ ہمیشہ چیخ کر یہی کہیں گے کہ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ مواخذے کا اچھوتا مذاق محض ایک اور سیاسی فتنہ گری ہے۔‘‘
بدھ کو مقدمے کی کارروائی کے آغاز سے کئی گھنٹے قبل صدر ٹرمپ نے بغیر ثبوت کے دعویٰ کیا کہ بولٹن نے بائیڈن کے خلاف تفتیش کی کوشش کے بارے میں عہد حاضر کی نوعیت کا کوئی اعتراض پیش نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’’جان بولٹن نے پہلے اس بارے میں شکایت کیوں نہیں کی، جب انھیں سر عام برطرف کیا گیا تھا۔ ایسی بات کی کوئی اہمیت نہیں۔ بالکل بھی نہیں۔‘‘
امریکی ایوان نمائندگان میں مواخذے کی کارروائی کے دوران پیش کی گئی شہادت کے مطابق جان بولٹن نے بائیڈن کے خلاف تفتیش کے معاملے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ایک نکتے پر انھوں نے کہا تھا کہ منشیات کی لین دین کے الزام کی طرح وہ نہیں چاہتے کہ کسی طور پر ایسے کسی معاملے کا حصہ بنا جائے۔