سی پیک کے لئے افغانستان کی اہمیت اس لحاظ سے بہت زیادہ ہے کہ اس کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ وسطی ایشیاء میں داخلے کا دروازہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چین اور پاکستان دونوں کی جانب سے اسے سی پیک میں لانے کی کوششیں جاری ہیں۔ خاص طور پر ایسے میں جب افغانستان کے حالات بدل چکے ہیں اور ان بدلے ہوئے حالات میں طالبان کو بدحال معیشت کو سنبھالنے اور زر مبادلہ کی حالت بہتر بنانے کے لئے مالی مدد کی ضرورت ہے۔
افغانستان کی سی پیک میں شمولیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کی پارلیمانی کمیٹی برائے سی پیک کے سربراہ ارباب شیر علی نے کہا کہ افغانستان کی معشیت کا انحصار امداد پرتھا اور ایسے میں جب اسے عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے کوئی مدد نہیں مل رہی ہے، نہ مغربی ملکوں میں اسکے منجمد فنڈز ریلیز کئے جا رہے ہیں وہ اپنی بقا کے لئے کسی بھی ایسے ملک یا ملکوں کے ساتھ آگے چلنے کے لئے آمادہ ہوگا جو اس مشکل صورت حال سے نکلنے میں اسکی مدد کریں۔ دوسری جانب،چین یہ چاہے گا کہ افغانستان 'بیلٹ اینڈ روڈ' منصوبے میں اسکا پارٹنر بنے۔ یعنی دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔
بقول ارباب شیر علی، آج کی دنیا 'جیو اکانامکس' کی دنیا ہے؛ اور جو بھی ملک چاہے وہ چین ہو یا روس یا کوئی اور ملک جو اسے اس مرحلے پر سہارا دے گا وہ اس کے ساتھ جائیگا۔
انکا کہنا تھا کہ پاکستان کی پہلے بھی خواہش تھی کہ افغانستان سی پیک کا حصہ بنے اور وہ اب بھی اس کے لئے کوشاں ہے اور اپنے طور پر اقدامات بھی کر رہا ہے۔ اور وہ سمجھتا ہے کہ مستحکم افغانستان خطے میں خاص طور پر وسط ایشیائی خطے میں تجارت اور معاشی سرگرمیوں کے لئے بہت اہم ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سوال کے جواب میں کہ کیا چین سی پیک میں مزید سرمایہ کاری نہیں کر رہا، ارباب شیر علی نے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ البتہ، سیکیورٹی کے حوالے سے کچھ مسائل تھے، جن پر حکومتی سطح پر کام ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر ایوب مہر ہاکستان کے ایک ممتاز ماہر معاشیات اور اکنامک کوآپریشن کونسل یا 'ای سی او چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری' کے معاشی مشیر ہیں۔ سی ہیک کے لئے افغانستان کی اہمیت کے بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ای سی او ملکوں کی تعداد بنیادی طور پر گیارہ ہے۔ اور ان میں افغانستان کی سینٹرل لوکیشن بنتی ہے۔ اور ان گیارہ ملکوں کے ساتھ اگر چین اور منگولیا کو بھی شامل کرلیا جائے تو ان سب کے لئے افغانستان مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
بقول ان کے، سی پیک چین اور پاکستان کا منصوبہ ہے لیکن یہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ یا 'بی آر آئی' منصوبے کا بھی ایک حصہ ہے۔ اس بی آر آئی کے تین روٹس ہیں۔ ان میں سےایک ملیشیا سے شروع ہو کر ترکی تک جاتا ہے۔ یہ سدرن روٹ کہلاتا ہے۔
یہ روٹ جب چین کے شہر کاشغر پہنچتا ہے تو وہاں وہ ایک روٹ سے ملتا ہے جسے سی پیک کہا جاتا ہے۔ یہ کاشغر سے شروع ہو کر تاجکستان اور کرغزستان سے ہوتا ہوا پاکستان تک آجاتا ہے۔ لیکن اس روٹ کی صحیح معنوں میں افادیت اسی وقت ہو سکتی ہے جب دو لینڈ لاک ممالک ترکمانستان اور ازبکستان بھی اسکے دائرہ کار میں آجائیں۔ لیکن، سی پیک کو ترکمنستان اور ازبکستان کے ساتھ اسوقت تک نہیں جوڑا جاسکتا جب تک کہ افغانستان سی پیک سے نہ جڑ جائے۔
کیونکہ افغانستان کے مغرب میں ترکمنستان اور ازبکستان اور مشرق میں پاکستان ہے؛ اس لحاظ سے سی پیک کے لئے افغانستان کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر ایوب مہر نے کہا کہ سی پیک اس وقت تک مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتا جب تک ازبکستان جو ایک بڑی آبادی والا ملک ہے اور ترکمنستان جو ایک صنعتی اور دولتمند ملک ہے، اس میں شامل نہ ہوں، جہاں کاروبار اور سرمایہ کاری کے بھاری مواقع ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں یہ تاثر درست نہیں کہ چین سی پیک کے دوسرے مرحلے میں سرمایہ کاری میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا۔ تاہم، یہ بات درست ہے کہ سیکیورٹی کے حوالے سے اسکے تحفظات یقیناً ہونگے جو حکومتی سطح ہر زیر غور آ سکتے ہیں۔