ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد بھارتی وزیرِ خارجہ کا دورۂ امریکہ کتنا اہم ہے؟

بھارتی وزیرِ خارجہ 24 دسمبر کو امریکہ روانہ ہو رہے ہیں۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے بعد بھارتی وزیرِ خارجہ کا یہ پہلا امریکی دورہ ہے۔
  • ایس جے شنکر نے رواں سال کے آغاز میں نئی دہلی میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ بھارت کے بارے میں ٹرمپ کا سیاسی مؤقف ہمیشہ مثبت رہا ہے۔
  • تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایسے وقت پر جب بائیڈن انتظامیہ رخصت پذیر ہے اور ٹرمپ انتظامیہ آنے والی ہے ایس جے شنکر کے امریکہ کے دورے کی کافی اہمیت ہے۔
  • بائیڈن انتظامیہ میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی اور عسکری شعبوں میں اشتراک بڑھانے کے سلسلے میں جو مفاہمت ہوئی تھی اس کو پختہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے: سینئر تجزیہ کار اسد مرزا

نئی دہلی— بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر 24 سے 29 دسمبر تک امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بھارت کی بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ آخری اعلٰی سطحی بات چیت ہو گی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے بعد ان کا یہ پہلا امریکی دورہ ہے۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وہ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مقرر کردہ عبوری ٹیم کے ارکان سے بھی ملاقات اور تبادلۂ خیال کریں گے یا نہیں۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں ایس جے شنکر کے امریکہ دورے کی اطلاع دی ہے۔ البتہ ان کا کہنا ہے کہ وزیرِ خارجہ بھارت کے سفیر اور قونصل جنرلز کے ایک اجلاس کی صدارت کریں گے اور انھیں آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانے کے بارے میں بریف کریں گے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جے شنکر امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اور بائیڈن انتظامیہ کے دیگر اہل کاروں کے ساتھ عالمی، علاقائی، اسٹریٹجک اور دو طرفہ امور پر تبادلۂ خیال کریں گے۔

واضح رہے کہ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بھارت پر امریکی سرزمین پر خالصتانی رہنما گورپتونت سنگھ کے قتل کی سازش کے الزام کی وجہ سے باہمی تعلقات میں کچھ تناؤ پیدا ہوا ہے۔

ایس جے شنکر نے رواں سال کے آغاز میں نئی دہلی میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ بھارت کے بارے میں ٹرمپ کا سیاسی مؤقف ہمیشہ مثبت رہا ہے۔

تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ بہت سے دیگر ملکوں کی طرح بھارت کے بھی ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ کچھ مسائل ہو سکتے ہیں جنھیں حل کیا جا سکتا ہے۔

مبصرین کے مطابق 2017 سے 2021 کے ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں بھارت امریکہ رشتے کافی آگے بڑھے تھے۔ اسی طرح بائیڈن انتظامیہ میں اعلیٰ ٹیکنالوجی اور دفاع سمیت متعدد شعبوں میں باہمی تعاون میں اضافے کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایسے وقت پر جب بائیڈن انتظامیہ رخصت پذیر ہے اور ٹرمپ انتظامیہ آنے والی ہے ایس جے شنکر کے امریکہ کے دورے کی کافی اہمیت ہے۔ قبل ازیں جب ٹرمپ انتظامیہ رخصت ہو رہی تھی تو اس وقت بھی ان کا دورہ ہوا تھا۔

کن اُمور پر بات چیت ہو گی؟

عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کے مطابق بائیڈن انتظامیہ میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی اور عسکری شعبوں میں اشتراک بڑھانے کے سلسلے میں جو مفاہمت ہوئی تھی اس کو پختہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ایسی توقع کی جا رہی ہے کہ امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اگلے ماہ کے شروع میں بھارت آ سکتے ہیں اور اپنے بھارتی ہم منصب اجیت ڈوول سے ملاقات اور بات چیت کر سکتے ہیں۔

ان کے مطابق بائیڈن انتظامیہ جن معاملات کو اپنی مدت مکمل ہونے سے قبل آگے بڑھانا چاہتی ہے ان میں ’انی شیئیٹیو آن کریٹیکل اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجی ‘(آئی سی ای ٹی) خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ اس کے علاوہ جنرل انجینئرنگ کے فائٹر جیٹ انجن ایف 414 کے معاہدے کو حتمی شکل دینا بھی شامل ہے۔

بھارت اپنے جنگی جہاز 'تیجس مارک ٹو' میں اس انجن کو نصب کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ نے تاحال جنرل انجینئرنگ کو کسی دوسرے ملک کو یہ انجن فروخت کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ لیکن اس نے بھارت کے لیے اس کی فروخت پر پابندی ہٹا دی ہے اور بھارت کو دو انجن فروخت کیے جا رہے ہیں۔

ان کے مطابق فریقین بائیو ٹیکنالوجی، اسپیس، کوانٹم ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے شعبوں میں باہمی تعاون میں اضافہ چاہتے ہیں۔ خاص طور پر سیمی کنڈکٹر کے سلسلے میں اعلیٰ قیادت کسی مفاہمت پر پہنچنا چاہتی ہے۔

ان کے خیال میں سیمی کنڈکٹر کا شعبہ بہت خاص ہے۔ اس سلسلے میں دونوں ملکوں میں کوئی معاہدہ ہو سکتا ہے۔

کیا منتخب صدر ٹرمپ کی عبوری ٹیم سے بھی ملاقاتیں ہوں گی؟

اسد مرزا مزید کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ایس جے شنکر ڈونلڈ ٹرمپ کی عبوری ٹیم کے بعض ارکان سے بھی ملیں اور یہ کوشش کریں کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کو بھی ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں شرکت کا دعوت نامہ ارسال کیا جائے۔

واضح رہے کہ وزارتِ خارجہ کے ترجمان سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ان کے پاس اس بارے میں کوئی تازہ اطلاع نہیں ہے۔ انھیں جب بھی جو کچھ معلوم ہو گا وہ میڈیا کو بتائیں گے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ اپنی تقریبِ حلف برداری میں جو کہ 20 جنوری کو ہو گی، حلیفوں اور حریفوں دونوں کو شامل کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے چین کے صدر شی جن پنگ اور دیگر عالمی رہنماؤں کو تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ ارسال کیا ہے۔ ان میں نریندر مودی کا نام شامل نہیں ہے۔

ایس جے شنکر بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ اہل کاروں سے ملاقات میں عالمی ایشوز پر بھی گفتگو کر سکتے ہیں۔ بھارت نے جس طرح کی خارجہ پالیسی اختیار کر رکھی ہے اس کی بہت سی باتیں امریکہ اور مغرب کو سوٹ نہیں کرتیں۔

فریقین کے درمیان غزہ، یوکرین، شام اور حکومت کی حالیہ تبدیلی کے بعد بنگلہ دیش کے سلسلے میں قریبی بات چیت ہوتی رہی ہے۔

خیال رہے کہ بھارت کے بزنس مین گوتم اڈانی اور اڈانی گروپ کے اہم عہدے داروں کے خلاف ایک امریکی عدالت میں الزامات عائد کیے جانے کے بعد ایس جے شنکر پہلی بار امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں۔