فلسطینی مظاہرین گزشتہ ایک ہفتے سے 'شیخ جراح' کے علاقے سے فلسطینی خاندانوں کی بے دخلی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
آٹھ فلسیطنی خاندانوں کو بے دخل کر کے یہودی آبادکاروں کو یہاں لانے پر ہونے والے احتجاج کے باعث اس علاقے میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔
اس علاقے میں ہونے والی کشیدگی کے بعد گزشتہ ہفتے یروشلم میں مسجدِ اقصٰی کے احاطے میں جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا جن میں پیر کو شدت آ گئی۔
اس کے بعد غزہ سے مزاحمتی تنظیم حماس کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ داغے گئے جس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر فضائی حملے کیے ہیں۔
شیخ جراح اتنا اہم کیوں؟
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کے نزدیک شیخ جراح کا علاقہ فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم سے بے دخل کرنے کے لیے جاری اسرائیل کی مہم کی علامت بن چکا ہے۔
قدیم شہر یروشلم کے بابِ دمشق سے تقریباً ساڑھے پانچ سو گز دور اس علاقے میں مکانات کے علاوہ لگژری ہوٹل اور غیر ملکی قونصل خانے بھی ہیں۔
سن 1187 میں صلیبی جنگوں میں یروشلم فتح کرنے والے مسلمان فاتح صلاح الدین ایوبی کے ذاتی معالج کے نام پر اس علاقے کا نام ’شیخ جراح‘ رکھا گیا۔
اسرائیل نے 1967کی جنگ میں قدیم شہر، مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے سے ملحقہ علاقے حاصل کرلیے تھے۔ اسرائیل یروشلم کے پورے علاقے کو اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے اور شیخ جراح بھی اس میں شامل ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل اور حماس کے درمیان تصادم مزید شدت اختیار کر گیا، 26 فلسطینی، دو اسرائیلی ہلاکاس کے علاوہ شیخ جراح میں ایک مذہبی پیشوا کا قدیم مقبرہ بھی ہے جسے مذہبی یہودی بہت اہمیت دیتے ہیں۔
یہاں زیادہ تر مکانات میں فلسطینی رہتے ہیں تاہم بعض اسرائیلی آبادکاروں بھی یہاں منتقل ہو چکے ہیں۔ آبادکاروں کا کہنا ہے کہ 1948کی اسرائیل عرب جنگ سے قبل جب فلسطین سے برطانوی اختیار ختم ہوا، یہ علاقہ یہودیوں کی ملکیت تھا۔
شیخ جراح کی عثمان ابن عفان گلی کے پڑوس میں رہنے والے 77سالہ نبیل الکردی کو بھی طویل قانونی جنگ کے بعد یہاں سے بے دخلی کا سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’’اسرائیل مجھے میرے اس گھر سے نکالے بغیر اطمینان سے نہیں بیٹھے گا جہاں میری پوری عمر گزری ہے۔‘‘
نبیل الکردی کے مکان کا آدھا حصہ قانونی لڑائی کے بعد 2009میں اسرائیلی آبادکار لے چکے ہیں۔ جس کے بعد اس مکان کے بیچ میں ایک دیوار بنا دی گئی ہے جو ان کے خاندان اور آبادکاروں کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے۔
اب نبیل الکردی کی ساری امیدیں اسرائیل کی سپریم کورٹ سے وابستہ ہیں۔
اسرائیلی حکومت اس معاملے کو فریقین کے مابین جائیداد کا تنازع قرار دے کر اس میں کسی بھی سطح پر ریاست کے شامل نہ ہونے کا تاثر دیتی ہے۔
قانونی لڑائی
پیر کو ہونے والے احتجاج میں اسرائیلی عرب قانون ساز نمائندے بھی شامل تھے جو "آباد کار نکل جائیں" کے نعرے لگا رہے تھے۔ عثمان ابن عفان اسٹریٹ میں ان اسرائیلی عرب نمائندوں اور قوم پرست اسرائیلی سیاست دانوں کا آمنا سامنا بھی ہوا۔
اس وقت شیخ جراح میں رہنے والے فلسطینیوں کو 1950 کی دہائی میں اردن نے یہاں آباد کیا تھا۔ یہ وہ فلسطینی خاندان ہیں جنہیں 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت ہونے والی جھڑپوں میں مغربی یروشلم اور حیفہ میں اپنے گھر چھوڑنے پڑے تھے یا انہیں وہاں سے نکال دیا گیا تھا۔
عثمان بن عفان اسٹریٹ پر ملکیت کا دعوٰی کرنے والے یہودی آبادکاروں کا کہنا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد نے انیسویں صدی کے اختتام پر یہودی تنظیموں سے یہ زمینیں خریدی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسرائیل کی ایک عدالت آبادکاروں کے حق میں فیصلہ دے چکی ہے۔ یہ فیصلہ اسرائیل کے اس قانون کے مطابق دیا گیا ہے جس میں یہودیوں کو 1948 میں ہاتھ سے جانے والی جائیداد واپس لینے کی اجازت دی گئی ہے۔
تاہم مغربی یروشلم یا اسرائیل کے دیگر حصوں میں جائیداد سے محرومی کی صورت میں یہ حق فلسطینیوں کو دینے کا کوئی قانون موجود نہیں۔
اسرائیلی عربوں کا احتجاج
آبادکاروں اور فلسطینیوں کے مابین شیخ جراح پر جاری اس قانونی تنازع میں 10مئی کو اسرائیلی سپریم کورٹ کی اہم سماعت ہونا تھی۔ تاہم علاقے میں کشیدگی بڑھنے اور مسجد اقصی میں ہونے والے واقعات کے بعد یہ سماعت بھی ملتوی کردی گئی۔
اقوام متحدہ اور دنیا کے مختلف ممالک شیخ جراح سے فلسطینیوں کی بے دخلی کے ناقد ہیں۔ اس کے علاوہ سات مئی کو امریکہ کے محکمۂ خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں بھی اس علاقے سے فلسطینی خاندانوں کی ممکنہ بے دخلی پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
بے دخلی کے خلاف فلسطین کے مغربی کنارے تک تمام شہروں اور اسرائیلی عربوں کی جانب سے حیفہ اور ناصرہ کے علاقوں میں احتجاج کیا جارہا ہے۔