آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت مسترد کر دی ہے۔
خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے جمعرات کو سائفر کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان، سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور سابق وفاقی وزیر اسد عمر کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی۔
عدالت نے اسد عمر کی درخواست ضمانت منظور کر لی، تاہم سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت مسترد کر دی گئی۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق اسد عمر کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل تحریری طور پر تفتیش میں شامل ہو چکے ہیں۔
اس موقع پر اسد عمر نے خود بھی عدالت کو آگاہ کیا کہ انہوں نے ایف آئی اے سے بذریعہ خط پوچھا تھا کہ انہیں بتایا جائے کہ تفتیش میں کب اور کہاں شامل ہونا ہے۔
بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسد عمر سائفر کیس کے مقدمے میں براہِ راست نامزد نہیں ہیں۔ 22 اگست کو اسد عمر نے درخواستِ ضمانت دائر کی تھی۔ رواں سال مارچ میں سائفر کی انکوائری کو شروع ہوئے ایک سال ہوا ہے۔
اس دوران ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹرز کے معاون نے عدالت سے سماعت 12 بجے شروع کونے کی استدعا کی۔
اسد عمر کے شاملِ تفتیش ہونے پر اسپیشل پراسیکیوٹرز کے معاون کے اعتراض کو خصوصی عدالت کے جج نے مسترد کر دیا۔
جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے ریمارکس دیے "صاف سی بات ہے جو حق ہو گا اسے ملے گا، جو نہیں ہوگا نہیں دیا جا سکتا۔"
بعد ازاں اسد عمر ایک بار پھر روسٹرم پر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایف آئی اے نے گزشتہ سال دسمبر 2022 اور حال ہی میں ایف آئی اے نے طلب کیا تھا اور چند گھنٹوں پر محیط تفتیش کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے دلائل دیتے ہوئے کہ اسد عمر کی اس کیس میں تاحال گرفتاری مطلوب نہیں۔ ان کے خلاف کوئی ثبوت ابھی موجود نہیں۔ اگر ان کی درخواستِ ضمانت پر دلائل سننے ہیں تو عدالت کی اپنی مرضی ہے۔ تفتیش کے دوران اگر کوئی ثبوت ملا تو اسد عمر کو آگاہ کیا جائے گا۔
اس پر اسد عمر کے وکیل بابر اعوان نے عدالت سے استدعا کی کہ ایف آئی اے کے پاس ثبوت نہیں تو ضمانت کنفرم کر دی جائے۔
جس پر فاضل جج نے اسد عمر کی درخواستِ ضمانت 50 ہزار روپے مچلکوں کے عوض منظور کر لی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اسد عمر کی گرفتاری مطلوب نہیں، اگر ایف آئی اے کو گرفتاری مطلوب ہوئی تو اس ضمن میں اسد عمر کو پہلے آگاہ کیا جائے۔
عمران خان کے وکیل کے دلائل
تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے سابق وزیرِ اعظم کی ضمانت کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے نے جھوٹے مقاصد اور اتھارٹی کا غلط استعمال کرتے ہوئے سائفر کیس کا مقدمہ درج کیا۔ اس کیس میں جلد بازی میں سب کے نام نامزد کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ سائفر کیس کا مدعی وزارتِ داخلہ کا ایک افسر ہے اور وزارتِ داخلہ نے یہ کیس ہائی جیک کیا۔
وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ جس سائفر کی بنیاد پر کیس ہوا ہے وہ واشنگٹن ڈی سے ارسال کیا گیا جسے وزارتِ خارجہ نے وصول کیا۔
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان پر اس کیس میں سائفر ذاتی مفادات حاصل کرنے کا الزام ہے۔ ان پر سائفر کیس میں قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا بھی الزام ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وکیل سلمان صفدر کے مطابق عمران خان محبِ وطن پاکستانی ہیں۔ بطور وزیرِ اعظم ملک کی خود مختاری کا سوچا۔ ان کے خلاف 180 سے زائد مقدمات درج کیے گئے جن میں 140 سے زائد کیسز ان کی گرفتاری سے قبل درج ہوئے۔
سائفر کیس کیا ہے؟
عمران خان نے گزشتہ برس اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمے دار امریکہ کو قرار دیتے ہوئے اسلام آباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک خط لہرایا تھا جو ان کے مطابق وہ مبینہ سائفر تھا جو پاکستانی سفیر نے امریکہ سے بھیجا تھا جس میں مبینہ طور پر امریکہ کی طرف سے ان کی حکومت کو ہٹانے کا کہا گیا تھا۔
امریکہ اس بارے میں عمران خان کے تمام الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔امریکی محکمۂ خارجہ کی پریس بریفنگزمیں بھی اس بارے میں متعدد بار پوچھے گئے سوالات میں عمران خان کے الزامات کو مسترد کیا گیاہے۔
اپریل 2022 میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔
عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے اس سائفر کو سیاسی طور پر استعمال کیا اور اپنی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے حکومت ختم کرنے کی سازش کی۔ بعد ازاں انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی اس سازش میں شامل قرار دیا۔
اس سائفر کی تحقیقات کا آغاز شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت نے ایف آئی اے کے ذریعے کیا تھا۔
اس کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان، سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور سابق وفاقی وزیر اسد عمر نامزد ہیں۔