پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی سرکار ہندوتوا نسل پرست سوچ پر کاربند ہے جس کے علاقائی توسیعی عزائم ہیں۔
عمران خان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں مودی حکومت کو ماضی کی انتہا پسند نازی جرمن پارٹی کی سوچ سے تشبیہہ دیا ہے۔
عمران خان کی جانب سے نریندر مودی کی حکومت پر تنقید ایسے وقت میں کی گئی ہے جب بھارت اور چین کے درمیان لداخ پر کشیدگی کی خبریں زور پکڑ رہی ہیں۔
دوسری جانب سیاسی تجزیہ کار خطے کی کشیدہ ہوتی صورتِ حال کو بھارت کی جانب سے کشمیر اور لداخ کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان کے سابق سفیر شمشاد احمد کہتے ہیں کہ لداخ میں معاملات زیادہ کشیدہ ہوئے تو شاید بھارت دوسرے ممالک سے حالات کی بہتری کی کوشش کے لیے رابطہ کرے جیسے کہ وہ ساٹھ کی دہائی میں ہونے والی پہلی چین بھارت جنگ کے دوران کر چکا ہے۔
عمران خان نے بھارت کی پالیسیز کو تمام ہمسایہ ملکوں کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں روہنگیا مسلمانوں پر اثر انداز ہونے والے بھارت کے حالیہ منظور کردہ شہریت ایکٹ، نیپال اور چین کے ساتھ سرحدی جھڑپوں اور پاکستان کو فلیگ شپ آپریشنز کی مبینہ دھکیموں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ بھارت یہ سب اپنے زیرِ انتظام کشمیر پر 'غیر قانونی قبضے' کے بعد کر رہا ہے۔ کشمیر پر 'قبضہ' اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر پر حق جتانا چوتھے جنیوا کونشن کے تحت جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ وہ ہمیشہ سے مودی حکومت کو فاشسٹ کہتے آئے ہیں کیوں کہ ان کے بقول، مودی حکومت نے نہ صرف بھارت میں بسنے والی اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا ہے بلکہ یہ سرکار خطے کے امن کے لیے بڑا خطرہ ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی پر تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس موقع پر یہ معاملات اٹھانے پر حق بجانب ہے کیوں کہ بھارت کی جانب سے اب تک لائن آف کنٹرول پر 900 سے زائد بار خلاف ورزی کی جا چکی ہے۔
ان کے بقول، "بھارت کی انتہا پسندی کا اثر جنوبی ایشیا کے تمام ممالک پر پڑ رہا ہے۔"
اس سوال پر کہ چین اور بھارت کے بگڑتے تعلقات کا پاک بھارت تعلقات پر کس حد تک اثر پڑ سکتا ہے؟ ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا تھا کہ لداخ پر بدلتے حالات کو گلگت بلتستان کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہے کیوں کہ چین اپنی سرمایہ کاری کے بعد اس پورے خطے کو مختلف انداز سے دیکھ رہا ہے۔
سابق سفارت کار شمشاد احمد بھی اس بات پر کم و بیش یہی راے رکھتے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت انتہا پسندی کی جس روش پر چل پڑی تھی ایک دن حالات نے بگڑنا ہی تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے یہی باتیں پہلے بھی کیں ہیں اس لیے ان کو چین او بھارت کی موجودہ صورتِ حال سے ہٹ کر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
SEE ALSO: چین اور بھارت کا سرحدی تنازعات افہام و تفہیم سے حل کرنے پر اتفاقشمشاد احمد کے بقول، "اصل مسئلہ کشمیر اور لداخ کی بھارتی آئینی حیثیت کی تبدیلی کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور جس کا اثر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاوہ اس کے باقی شمالی علاقہ جات کی خود مختاری پر بھی پڑتا ہے۔
ہما بقائی کے مطابق مودی سرکار کو لداخ میں بڑھتی کشیدگی اور اس کا اب تک کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے پانے کی وجہ سے اندرونی طور پر سبکی کا سامنا ہے۔
کشمیر سمیت دیگر علاقائی معاملات کیا شکل اختیار کر سکتے ہیں؟ اس پر شمشاد احمد کا کہنا تھا کہ کشمیر کے مسئلے پر چین ایک فریق ضرور ہے اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ان تمام معاملات کا حل جب بھی ہو گا مذاکرات کے ذریعے ہی ہو گا۔ البتہ بھارت کو چین سے ملحقہ اپنی سرحد پر پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
بھارت کی حکومت چین پر لداخ پر معمول کی سرگرمیوں میں رخنہ اندازی کا الزام لگا چکی ہے جب کہ چین کی وزراتِ خارجہ نے بھارتی افواج پر لائن کراس کرنے اور یک طرفہ طور پر لداخ بارڈر کی حیثیت بدلنے کا الزام عائد کیا ہے۔