پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان اپنے چین کے چاروزہ دورے کے اختتام پر اتوار کو چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے بعد وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔
دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے بعد پاکستانی دفترِ خارجہ کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور چین کی شراکت داری خطے میں امن و استحکام کے لیے ہے۔
دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور چین کے درمیان جاری تعاون سمیت خطے کی مجموعی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا۔
گرینڈ ہال آف پیپل میں ہونے والی اس ملاقات میں عمران خان نے ونٹر اولمپکس کے انعقاد پر چینی صدر کو مبارکباد دی۔
عمران خان نے کہا کہ چین پاکستان کا ثابت قدم دوست، کٹر حامی اور آئرن برادر ہے جس نے ہر مشکل میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ دونوں ملکوں کی دوستی ہر آزمائش پر بھی پوری اُتری ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) میں چین کی سرمایہ کاری کا خیر مقدم بھی کیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھارتی اقدامات اور اُن کے بقول انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا ۔
اعلامیے کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ خوشحال اور پرامن افغانستان خطے میں امن و سلامتی کا ضامن ہے۔
ملاقات کے دوران پاکستانی وزیرِ اعظم نے چینی صدر کو دورۂ پاکستان کی بھی دعوت دی۔
Your browser doesn’t support HTML5
وزیرِ اعظم عمران خان کی چینی ہم منصب سے بھی ملاقات
قبل ازیں ہفتےکو پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے چینی ہم منصب لی کی چیانگ سے ملاقات میں باہمی تعلقات کے تمام پہلوؤں بشمول اقتصادی و تجارتی تعاون اور سی پیک منصوبوں میں پیش رفت اور علاقائی اور عالمی معاملات پر گفتگو کی تھی۔
اس موقع پر وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی ، و زیرِ خزانہ شوکت ترین ، وزیرِ منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر اور وزیرِ اطلاعات ونشریات فواد چوہدری کے علاوہ کئی دیگر اعلیٰ پاکستانی حکام بھی موجود تھے۔
چینی اور پاکستانی سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق اس موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بیجنگ میں سرمائی اولمپکس کے انعقاد پر چینی ہم منصب کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اورچین کے اسٹرٹیجک تعلقات دونوں ملکوں کے مفادات بلکہ خطے کی امن و سلامتی کے لیے بھی اہم ہیں۔
دوسری جانب چین کے وزیرِ اعظم نے پاکستانی ہم منصب سے کہا کہ علاقائی سفارت کاری میں میں پاکستان چین کی ترجیح ہے اور چین خوشحالی کے حصول میں پاکستان کی حمایت کرتا ہے۔
چینی وزیر اعظم نے کہا کہ چین اپنی کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کی حمایت کرتا ہے اور پاکستان کی طرف سے چینی کمپنیوں اور ان کے کارکنوں کے تحفظ کے لیے پاکستانی حکومت کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔
پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان نے کہا کہ چین کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم سنگ بنیاد ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے چینی وزیرِاعظم سے ملاقات کے دوران ایک بار پھر اس بات کااعادہ کیا کہ پاکستان سی پیک منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہے اور اس منصوبے کے تحت کئی شعبوں میں تعاون کو مضبوط کرنے کی کوششیں جاری رکھےگا۔
عمران خان سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے تین فروری کو چین پہنچے تھے اور اس دورے کے دوران انہوں نے چینی قیادت کے علاوہ کئی دیگر اعلیٰ چینی عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں ۔
اسی بارے میں
بیجنگ اولمپکس کی افتتاحی تقریب: کون شریک, کس کا بائیکاٹ؟براس سے مجید بریگیڈ: پاکستان کی فوج بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے نشانے پرتحریک طالبان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے حملوں میں گھرا پاکستان کیا کرے؟
اس موقع پر جمعے کو چین اور پاکستان نے سی پیک کے منصوبے کے تحت صنعتی تعاون کے ایک فریم ورک معاہدے پر دستخط کیے۔ پاکستان کے سرمایہ کار ی بورڈ اور چین کے قومی ترقی اور اصلاحات کے کمیشن کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کا مقصد سی پیک کے دوسرے مرحلے میں چینی سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ چین کی بعض صنعتوں کو پاکستان میں خصوصی اقتصادی زونز میں منتقل کرنا بھی شامل ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان اور چین کے تعاون سے جاری سی پیک اب دوسری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جس کےتحت خصوصی اقتصادی زونز میں چینی اور دیگر غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے ایک جامع فریم ورک کی ضرورت تھی۔
'پاکستان اور چین باہمی تعلقات میں مزید مضبوطی چاہتے ہیں'
پاکستان کے سرمایہ کاری بورڈ کے سابق سربراہ ہارون شریف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان ایک ایسے وقت میں سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی جب بعض مغری ممالک بشمول امریکہ کے سفارتی بائیکاٹ کر دیا تھا۔
اُن کے بقول اس لیے وزیر اعظم عمران کا چینی قیادت کی دعوت میں چین کا دورہ کرنا اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان اور چین اپنے باہمی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔
ہارون شریف کا کہنا ہے کہ ا س دورے کے دوران ان کےبقول پاکستان اور چین کے درمیان طے پانے والے صنعتی تعاون کا معاہدہ سی پیک کا تسلسل ہے ۔
یادر ہے کہ سی پیک کے پہلے مرحلے میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبے بشمول شاہراہوں کی تعمیر ، گوادر بندرگا ہ کا بنیادی ڈھانچہ اور توانائی کے منصوبے لگ بھگ 25 ارب ڈالر کی مالیت سے مکمل کیے گئے ہیں۔
ہارون شریف کا کہنا ہے کہ سی پیک کے پہلے مرحلے کے منصوبوں کی افادیت کو بڑھانے کے لیے اب توجہ سی پیک کے دوسرے مرحلے پر مرکوز کرنا ضروری ہے تاکہ ملک کی معیشت اور عامی آدمی کی زندگی میں مثبت اثر پڑ سکے۔
پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس فریم ورک معاہدے کے تحت پاکستان میں قائم ہونے والے خصوصی صنعتی زونز میں ٹیکسٹائل، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کئی دیگر صنعتی شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے گی۔
سی پیک منصوبوں کی سست رفتار چین کے لیے باعث تشویش ہے؟
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے کے منصوبوں پر جلدپیش رفت سے پاکستانی معیشت پر مثبت اثر ات مرتب ہو سکتے ہیں۔
حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیکیورٹی کی صورتِ حال خاص طور پر صوبہ بلوچستان میں جہاں گودار بندرگاہ واقع ہے چین کے لیے باعث تشویش ہو سکتی ہے جب کہ توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی چینی کمپنیوں کو مکمل ادائیگی ہونا بھی ابھی باقی ہے۔
لیکن حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ دوسر ا سب سے بڑا معاملہ عمل درآمد کا رہا ہے کہ گزشتہ دو تین سال کے عرصے کے دوران کئی منصوبے رکے ہوئے ہیں ۔
حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ چینی سرمایہ کار کمپنیوں کا اعتماد حاصل کرنے لیے نہ صرف سیکیورٹی کی صورتِ حال کو بہتر ہونا ضروری ہے بلکہ سی پیک کے دوسرے مرحلے کے منصوبوں کےعمل درآمد کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی دور کرنا ضروری ہے۔
لیکن دوسر ی جانب حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنی معیشت کو درپیش مشکلات سے نمٹنے کے لیے ایک طرف عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف پر انحصار کررہا ہے لیکن دوسری جانب پاکستان چینی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ دیکھنا چاہتا ہے۔
اس لیے ان کےبقول پاکستان کو چین اور امریکہ کے درمیان توازن قائم کرنے کا چیلنج رہے گا جو افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کے بعد متاثر ہوا۔ لیکن حفیظ پاشا کا کہنا ہے یہ پاکستان کے مفاد میں ہوگا کہ امریکہ اور چین دونوں کے ساتھ تعلقات پائیدار بنیادوں پر استوار رہیں۔
ہارون شریف کا کہنا ہے کہ چینی سرمایہ کار ی کمپنیاں ہمیشہ سے خصوصی اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہاں رہی ہیں۔ لیکن چینی سرمایہ کار وں کے ذہن میں کئی سوال ہیں جن میں سیکیورٹی کا معاملہ بھی ہے ۔
دوسری جانب ان کے بقول پاکستان میں خصوصی اقتصادی زونز ابھی تک پوری طرح تیار نہیں ملک کے پاس ان زونز کے لیے مناسب گیس کی فراہمی کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔
ہارون شریف کا کہنا ہے کہ ان صنعتی اقتصادی زونز کے بنیادی ڈھانچے اور توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ مارکیٹ تک رسائی بھی ضروری ہے۔ ہارون شریف کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام کو جنگی بنادوں پر کام کرنا پڑےگا تاکہ چینی سرمایہ کاروں کے لیے ایک سازگارماحول فراہم ہو سکے۔
دوسری جانب ہارون شریف کہتے ہیں کہ پاکستان کی مقامی کمپنیاں چینی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں ہیں کیوں کہ چینی کمپنوں کے حجم کی وجہ سے اُنہیں یہ خدشہ ہے کہ کہیں وہ مقامی کمپنیوں کو ضم نہ کر لیں۔
ہارون شریف کا کہنا ہے کہ صنعتی تعاون کا معاہدے ایک خوش آئند اقدام ہے لیکن اگر پاکستان بھر پور کوشش کرگے تو پھر ہی اس کے نتائج تین سے پانچ سالوں میں آ سکتے ہیں۔
لیکن ان کے بقول پاکستان میں الیکشن کا سال آنے والا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت اس معاملے کی طرف کتنی توجہ دے پاتی ہے؟ کیونکہ صنعتی زونز کی تیاری اور سرمایہ کاری کے لیے ساز گار ماحول فراہم کرنے کے لیے دورس اور وسیع ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے ۔
پاکستان چین صنعتی تعاون کی راہ میں چیلنجز
بعض حلقوں میں یہ تاثر رہا ہے کہ سی پیک کے پہلے مرحلے کے منصوبے مکمل ہونے کے بعد دوسرے مرحلے کے منصوبے میں پیش رفت سست روی کا شکار رہی ہے۔
ہارون شریف کا کہنا ہے کہ ان کے بقول بظاہر اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم معاملہ پاکستان کی بیوروکریسی کی استعداد کار کا معاملہ ہے دوسری جانب چین کی استعداد کار کے مقابلے میں پاکستان کی بیوروکریسی کے استعداد کار کم ہے اس معاملات سست روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس معاملے کا ایک دوسری معاملے یہ ہے کہ پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی کے تحت کوشش کی ہے کہ وہ اقتصادی سفارت کاری کے تحت متعدد بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ تعلقات رکھے ون کہ پاکستان چین یا امریکہ کے کیمپ میں شامل ہو جائے۔
'بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ساز گار ماحول ضروری ہے'
ہارون شریف کا کہناہے کہ چین کی سرمایہ کاری کا ماڈل خصوصی اقتصادی زونز پر مبنی ہے اور اگر پاکستان چینی سرمایہ کاروں کے زیر تعمیر اقتصادی زون میں تمام سہولتیں اور اس سے متعلقہ بیوروکریسی کی استعداد کار بہتر کرتے ہیں اور ان اقتصادی زونز میں گیس اور بجلی اوردیگر سہولتیں دینے میں کامیا ب ہو جاتا ہے تو سرمایہ کاری کے لیے ماحول سازگار ہو جائے گا۔
ہارون شریف کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم اس بار پوری تیاری کے ساتھ چین گئے ہیں اور وہ ان مسائل سے آگاہ ہیں اور وزیر اعظم نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ خصوصی اقتصادی زونز سے جڑے مسائل کے حل کے لیے قانون سازی کریں تاکہ یہ مسائل بنیادی سطح پر حل ہو سکیں اور سرمایہ کاروں کو کئی اداروں سے رجوع نہ کرنا پڑے۔
'سیکیورٹی کی صورتِ حال بہتر ہونا ضروری ہے'
یادر ہے کہ حال ہی میں پاکستان کے صوبے بلوچستان میں کالعدم بلوچ علیحدگی پسندتنظیموں کے ہونے والے متعدد حملوں میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے ۔
ہارون شریف کا کہنا ہے کہ حال ہی میں بلوچستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات ایک ایسے وقت ہوئے ہیں جب وزیر اعظم عمران خان چین کے دورے پر روانہ ہونے والےتھے تو یقینی طورپر سیکیورٹی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا ہوگا۔ ہارون شریف کا کہنا ہے کہ کسی بھی سرمایہ کار کی طرح چینی سرمایہ کار کے لیے سیکیورٹی کی صورتِ حال باعث تشویش ہو سکتی ہےاور اس کے لیےانفرادی سیکیورٹی فراہم کرنے کے بجائے سیکیورٹی کا مجموعی ماحول بہتر ہونا ضروری ہے۔
چینی ذرائع ابلاغ کے مطابق دورہ چین کے دوران عمران خان نے چینی ہم منصب کو بتایا کہ کہ ملک میں جاری سی پیک کے منصوبوں اور ان پر کام کرنے والے چینی کارکنوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔
پاکستانی عہدیداروں نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ وزیراعظم عمران کے دورہ چین کے بعد پاکستان میں چینی سرمایہ کاری میں مزید تیزی نظر آئے گی۔