اتوار کو عدم اعتماد کا جو بھی نتیجہ ہو مزید طاقت ور ہو کر سامنے آؤں گا: عمران خان

وزیرِ اعظم عمران خان نے اُنہیں ملنے والے مبینہ دھمکی آمیز خط کے حوالے سے 'غلطی' سے امریکہ کا نام لے لیا اور بعدازاں کہا کہ ایک ملک نے پیغام بھجوایا کہ اگر تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو پاکستان کو معاف کر دیا جائے گا بصورتِ دیگر پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جمعرات کی شب قوم سے اپنے اہم خطاب میں عمران خان نے مستعفی ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اتوار کو جو بھی نتیجہ آئے وہ آخری وقت تک مقابلہ کریں گے اور مزید طاقت ور ہو کر سامنے آئیں گے۔

عمران خان نے ایسے وقت میں قوم سے خطاب کیا ہے جب عمران خان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی تحریکِ عدم اعتماد میں اتوار کو قومی اسمبلی میں ووٹنگ کا فیصلہ کن مرحلہ ہو گا۔

'سات یا آٹھ مارچ کو ہمیں امریکہ سے۔۔نہیں ایک غیر ملک سے پیغام آیا'

قوم سے خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ "سات یا آٹھ مارچ کو ہمیں امریکہ سے۔۔۔ امریکہ نہیں، ایک غیر ملک سے پیغام آیا تھا۔ جو ہے تو صرف وزیرِ اعظم کے خلاف لیکن درحقیقت پوری قوم کے خلاف ہے۔ اس میں واضح طور پر عدم اعتماد کے بارے میں لکھا ہے حالاں کہ اس وقت تحریکِ عدم اعتماد پیش بھی نہیں ہوئی تھی۔ گویا انہیں پہلے ہی معلوم تھا کہ کوئی تحریکِ عدم اعتماد آ رہی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ وہ خط پاکستان کی حکومت یا ریاست کے خلاف نہیں بلکہ صرف وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر عمران خان چلا جاتا ہے تو ہم پاکستان کو معاف کر دیں گے، بصورتِ دیگر اسے مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

وزیرِ اعظم نے اپنے خطاب میں اپوزیشن پر بھی سخت تنقید کی اور ساتھ ہی میڈیا کا بھی ذکر کیا۔

'کہا گیا عمران خان نے روس جانے کا فیصلہ خود کیا'

وزیرِ اعظم عمران خان نے مزید کہا کہ صرف ان کا نام لینے کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ بلکہ صرف ایک چیز کا کہا گیا کہ عمران خان نے روس جانے کا اکیلے فیصلہ کیا تھا۔ حالاں کہ اس میں سفارتی و عسکری مشاورت شامل تھی۔ ہمارے سفیر نے انہیں بتایا بھی کہ دورۂ روس سب کی مشاورت سے ہوا۔

خط لکھنے والے ملک اور اپنے خلاف متحد اپوزیشن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ کیا وہ اپنے ملک میں ایسے لوگوں کو اقتدار میں آنے کی اجازت دیں گے جن پر کرپشن کے کیسز ہوں؟ وہ اپنے ملک میں تو صرف جھوٹ بولنے پر نکال دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ (اپوزیشن رہنما) ٹھیک ہیں، لیکن عمران خان انہیں پسند نہیں۔'

اتوار کو فیصلہ ہو گا کہ ملک کا مستقبل کیا ہو گا'

وزیرِ اعظم عمران خان نے مستعفٰی ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتوار کو ملک کے مستقبل کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے اور لوگ ان لوگوں کی شکلیں یاد رکھیں گے جو اتوار کو اپنے ضمیر کا سودا کرنے جا رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر کسی کا خیال ہے کہ عمران خان چپ کر کے بیٹھ جائے گا کسی خوش فہمی میں نہ رہے، میں نے ساری زندگی مقابلہ کیا ہے اور آخری گیند تک مقابلہ کروں گا۔

عمران خان نے شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آج ہم نوجوانوں کو کیا سبق دے رہے ہیں کہ عوامی نمائندوں کی قیمتیں لگائی جا رہی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ لوگ یہ نہیں مانیں گے کہ ضمیر کا سودا کرنے والے شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن نظریاتی لوگ ہیں۔ بلکہ لوگ یہ کہیں گے یہ لوگ اس سازش کا حصہ ہیں جس نے آزاد خارجہ پالیسی رکھنے والی حکومت کو گرانے میں معاونت کی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اُن کے کوئی مفادات نہیں ہیں اور جب تک اُن میں خون ہے وہ مقابلہ کریں گے اور اتوار کو نتیجہ جو بھی ہے وہ مزید طاقت ور ہو کر سامنے آئیں گے۔

ڈرون حملے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہمیں اسی کمرے (وزیرِ اعظم ہاؤس) میں کہا گیا کہ امریکہ کی حمایت نہیں کی تو وہ زخمی ریچھ کی طرح ہمیں ہی نہ مار دے گا، افغان جہاد کے دو سال بعد ہی امریکہ ہم پر پابندیاں لگادیتا ہے۔

وزیرِ اعظم بولے کہ نائن الیون کے بعد واشنگٹن کو ہماری حمایت کی ضرورت پڑ جاتی ہے لیکن جو حمایت ہم نے کی اور پاکستانیوں نے اپنی 80 ہزار جانوں کی قربانی دی اس کے بدلے میں کسی نے ہماری عزت نہیں کی بلکہ پاکستان کو کہا گیا کہ دوغلی پالیسی کی وجہ سے افغان جنگ میں شکست ہوئی۔

وزیراعطم عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ جو لوگ اپنا سودا کرکے متحدہ اپویشن کی صفوں میں بیٹھے ہیں وہ یاد رکھیں لوگ کبھی نہیں بھولیں گے کیوں کہ آپ بیرونی سازش کا حصہ بنیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے امریکی سفیر پیٹرسن سے کہا کہ مجھے موقع دیں میں آپ کی خدمت کروں گا۔ جنرل راحیل شریف کو مودی دہشت گرد کہہ رہا تھا اور نواز شریف انہیں اپنا دوست کہہ رہے تھے۔

عمران خان کی تقریر پر ردِعمل

عمران خان کی تقریر پر سیاسی جماعتوں اور تجزیہ کاروں کی طرف سے ردِعمل کا سلسلہ جاری ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے نجی ٹی وی جیو نیوز پر بات کرتے ہوئے کہا کہ تین سال کے عرصہ میں عمران خان نے پاکستان کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ معیشت، جمہوریت،خارجہ پالیسی ، ہر ایک پر وہ حملہ آور ہو رہے ہیں ۔

اُن کا کہنا تھا کہ تبدیلی کے نام پر پاکستانی عوام پر بوجھ ڈال دیا گیا اور اب جب شکست سامنے نظر آ رہی ہے تو اس طرح کی الزام تراشی نامناسب ہے، اگر سیف ایگزٹ چاہیے تو استعفیٰ دیں اور خاموشی سے گھر چلے جائیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عمران خان نے چند دن قبل بڑے جلسے کی کوشش کی۔ اب وہ ایک لاکھ لوگوں کو پارلیمان کے باہر لانے کی بات کر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ لاکھوں لوگوں کو اکٹھا کرنے کے بجائے صرف 172 ارکان کا بندوبست کرے۔

سابق وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان نے صرف الزامات عائد کیے۔ ماضی میں ہمارے اور پیپلز پارٹی کے دور میں دہشت گردی کے خلاف ملک کے اندر بڑی جنگیں لڑی گئیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان نے امریکہ کا نام لیا اور ان پر الزامات عائد کیے، اگر امریکہ کو ہم سے دشمنی کرنی ہو تو پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی لسٹ میں گرے سے بلیک میں ڈال دیتا، آئی ایم ایف کے ذریعے فوری ہماری اقساط بند کردی جاتیں۔ ہمارے سفیر ایسی وائرز روزانہ لکھ کر بھیجتے ہیں۔ لیکن مجھے ایسا نہیں لگ رہا کہ امریکہ پاکستان کا دشمن بن گیا ہے۔

مریم نواز شریف نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ یہ ہر روز ثابت کرتا ہے کہ یہ اس کرسی کے قابل نہیں تھا۔


سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں سفیر کی طرف سے آنے والا مراسلہ یا انہیں بلا کر پاکستان سے متعلق کچھ کہنا ایک معمول کی بات ہے، ماضی میں امریکہ کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کے وقت یا دیگر ادوار میں براہ راست دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں۔ ایسے معاملات پر سفارتی انداز میں ڈیل کیا جائے تو سفارت کاروں کا ردعمل مختلف ہوتا ہے لیکن وزیراعظم عمران خان نے اپنے سیاسی انداز میں اس کا جواب دیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شمشاد احمد خان نے کہا کہ اس قسم کے واقعات میں سفارت کار کی طرف سے من و عن جو چیز بھی انہیں کہی جاتی ہے وہ بھجوا دی جاتی ہے۔ لیکن اس کے بارے میں میڈیا کی طرف سے خاصا کنفیوژن بھی پیدا کیا گیا کہ کوئی اسے مراسلہ کہہ رہا ہے، کوئی اسے خط کہہ رہا ہے

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں بڑی طاقتیں ایسا کرتی رہتی ہیں، اپنے مفادات ان کو مقدم ہوتے ہیں۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ ایسا ہورہا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے آزاد خارجہ پالیسی رکھی ہے، ماضی میں حکومتیں گھٹنے ٹیک دیتی تھیں، میں ان سب باتوں کا گواہ ہوں، ایسی قیادت امریکہ کے لیے نئی ہے، ماضی میں بھٹو دور میں ایسی حکومت آئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ سفیر کو بلایا ہوگا اور کہا ہوگا کہ عمران خان کی پالیسیوں سے اختلاف ہے۔ اس ملاقات میں ممکن ہے کہ انہوں نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ایسی کوئی بات کی ہو جس سے یہ ثابت ہو کہ امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہا ہے لہذا سفیر نے وہ بھجوا دیا۔لیکن اس میں اہم یہ ہے کہ ایسے معاملات پر ردعمل کیسا دیا جائے

سفارت کار عام طور پر اگر خط ہو تو اس کا خط میں ہی جواب دیدیا جاتا ہے،اگر سفیر کو بلایا ہو تو اس ملک کے سفیر کو بلا کر جواب دیدیا جاتا ہے۔ لیکن عمران خان نے اس معاملہ سے سیاسی انداز میں نمٹ رہے ہیں۔ اس کو پارلیمنٹ میں لے جانا چاہیے تھا لیکن عمران خان اپنے ووٹر کے پاس اس مراسلہ کو لے کر گیا ہے۔

یہ سیکیورٹی کا معاملہ نہیں، امریکہ پاکستان پر حملہ نہیں کررہا۔ اس لیے اسے سیاسی انداز میں دیکھا جارہا ہے اور یہ عمران خان کی مرضی ہے۔

قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس

دریں اثنا جمعرا ت کو ہی پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان کی زیرِ صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں کمیٹی نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کسی بھی طرح کی مداخلت کو ناقابلِ برداشت قرار دیا ۔ کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ اس معاملے پر پاکستان کی جانب سے سفارتی سطح پر احتجاج کیا جائے گا۔

وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق وزیرِاعظم عمران خان کی زیرِ صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں مسلح افواج کےسربراہان، وزیر دفاع، وزیر داخلہ، وزیر اطلاعات، مشیر قومی سلامتی، انٹیلی جنس ایجنسیز کے سربراہان اور دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔

اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کو ملنے والے دھمکی آمیز خط کے حوالے سے ارکان کو بریفنگ دی گئی۔

گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے جس میں خفیہ مراسلہ پیش کیا جائے۔

اجلاس کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی کو غیرملکی آفیشل کی پاکستانی سفیر سے ہونے والی باضابطہ بات چیت پر بریفنگ دی گئی۔

کمیٹی نے غیرملکی سفارت کار کی جانب سے استعمال کی گئی زبان پر تشویش کا اظہار کیا اور اسے غیرسفارتی قرار دیا ۔