امریکہ میں اب یہ ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں لیکن یورپ میں متنازع ہو چکے ہیں اور جنوبی ایشیا میں ہر کوئی ان کا خواہش مند ہے۔ یہ ایئر کنڈشینر کی بات ہو رہی ہے جن کو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی گرمی کی لہر میں کہیں مسئلے کا حل سمجھا جاتا ہے اور کہیں مسئلے کی جڑ ۔
اے سی کو برا کہیں یا بھلا البتہ دنیا کے بلند ہوتے درجۂ حرارت میں یہی گرمی کا فوری علاج ہے اور کئی ماہرین اسے لاکھوں انسانوں کی بقا کے لیے ضروری تصور کرتے ہیں۔
اے سی گرمی سے راحت تو فراہم کرتے ہیں لیکن اس سہولت کی ایک قیمت بھی ہے۔ ٹھنڈی ہوا دینے والی اس مشین کو چلانے کے لیے بہت زیادہ بجلی درکار ہوتی ہے اور اسی لیے اے سی کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ ساتھ توانائی کی طلب میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
توانائی کی اس کھپت کو پورا کرنے کے لیے جو ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں وہ بھاری مقدار میں کاربن کے اخراج کا باعث بنتے ہیں۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی(آئی اے ای) کے مطابق ایئر کنڈیشننگ سالانہ ایک ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج کا باعث بنتی ہے جب کہ دنیا بھر میں مجموعی طور پر اس گیس کا اخراج 37 ارب ٹن سالانہ ہے۔
ماہرین کے نزدیک ماحول دوست توانائی کی پیداوار میں اضافے، کم توانائی استعمال کرنے والے ایئرکنڈیشنرز کی تیاری اور ان کے ساتھ عمارتوں اور مکانات وغیرہ میں درجۂ حرارت کو کم رکھنے کی مختلف طریقوں کے ذریعے اے سی کے باعث ہونے والا کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم کیا جاسکتا ہے۔
کیا اے سی ختم ہوسکتے ہیں؟
عالمی توانائی ایجنسی سے منسلک ماہر رابرٹ ڈبرو کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے کڑے اقدامات کرنے کے حامیوں کا خیال تو یہ ہے کہ ایئر کنڈیشننگ کو ختم کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے خیال میں یہ حل قابلِ عمل نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اے سی ہر سال دنیا میں ہزاروں جانیں بچانے کا باعث بنتا ہے اور وقت کےساتھ ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
کئی تحقیقی جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے افراد جو اے سی والے گھروں میں رہتے ہیں ان کے لیے گرمی کی شدت کے باعث اموات کا خطرہ تین چوتھائی کم ہو جاتا ہے۔
امریکہ کے 90 فی صد گھروں میں اے سی ہے۔ حالیہ جائزوں نے امریکہ میں گرمی کی شدید لہر کے دوران لوگوں کو موسمی اثرات سے محفوظ بنانے کے لیے اے اسی کی اہمیت کو نمایاں کیا ہے جب کہ گرمی کی شدید لہر میں بڑے پیمانے پر بجلی کی بندش کے ممکنہ نقصانات کی بھی نشان دہی کی ہے۔
لیکن دنیا میں ہر جگہ ایئر کنڈیشننگ دستیاب نہیں ہے۔ گرم موسم کے علاقوں میں بسنے والے لگ بھگ ساڑھے تین ارب انسانوں میں سے صرف 15 فی صد کے گھروں میں اے سی ہیں۔
دو ارب اے سی
آج دنیا بھر میں کم و بیش دو ارب اے سی استعمال ہو رہے ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی گرمی اور گرم ممالک میں لوگوں کی آمدنی میں بہتری کی وجہ سے ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ متوقع ہے۔
بھارت، چین اور انڈونیشیا اے سی کی بڑھتی ہوئی تعداد کے اعتبار سے بالترتیب پہلے، دوسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2025 تک بھارت میں ایسے گھروں کی تعداد 10 فی صد سے بڑھ کر 40 فی صد ہوجائے گی جن میں اے سی لگا ہوگا۔ لیکن اے سی کے استعمال میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کے لیے تقریباً ’پورے ناروے ‘کے لیے درکار توانائی کے برابر اضافی بجلی درکار ہوگی۔
اگر بھارت اپنی توانائی کی پیداوار کے لیے بدستور تیل، گیس جیسے ایندھن بر انحصار برقرار رکھتا ہے تو اس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 12 کروڑ ٹن سالانہ اضافہ ہوگا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایئر کنڈیشننگ سے مسائل میں ہونے والا اضافہ یہیں نہیں رکتا۔ ان کے لیے چلائے جانے والے پاؤر پلانٹس بھی فضائی آلودگی کا باعث بنیں گے۔
ایئر کنڈیشننگ میں ٹھنڈک کے لیے عام طور پر فلورو کاربن گیسز کا استعمال ہوتا ہے جو ماحول میں خارج ہونے کے بعد کاربن ڈائی آکسائیڈ سے کئی ہزار گنا زیادہ گرمائش پیدا کرتی ہیں۔
سال 2014 میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق شہری مراکز میں رات کے وقت ایئر کنڈیشننگ کے باعث ہونے والے اخراج کی وجہ سے درجۂ حرات میں کم و بیش ایک ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اس کے لیے ایئر کنڈیشننگ پر آنے والی لاگت بھی اہم ہے۔ ایک بار اے سی لگنے کے بعد بڑھتی ہوئی بجلی کی قیمت کے باعث متوسط آمدنی والے خاندانوں پر بوجھ بڑھتا ہے اور بہت سے گھرانے اسی لاگت کی وجہ سے ضرورت کے باوجود اس کا استعمال نہیں کرپاتے۔
حل کیا ہے؟
ماحولیاتی معیشت کی ماہر ماہر اینریکا ڈی سیان کا کہنا ہے کہ بعض حالات اور جگہوں پر اے سی کا استعمال ضروری ہے۔ تاہم ان کے مطابق گرمی سے بچاؤ کے لیے کچھ دیگر اقدامات بھی کرنے پڑیں گے۔
ان کے خیال میں سب سے پہلے ماحول دوست توانائی کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے تاکہ کاربن کے اخراج سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی چیلنجز میں کمی آئے۔
اینریکا ڈی سیان کے مطابق ماحول دوست اقدامات کے ساتھ ساتھ کم قیمت اور کم توانائی استعمال کرنے والے اے سی بنانا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اے سی کو استعمال کرتے ہوئے اس کا درجۂ حرارت توانائی کی عالمی ایجنسی کی تجویز کے مطابق 24 ڈگری سے کم نہ کیا جائے۔
SEE ALSO: کیا پتہ ہم جہنم میں رہ رہے ہوں؟پاکستان سمیت بعض ممالک میں اے سی کو 26 ڈگری تک رکھنا بھی تجویز کیا جاتا ہے۔
اس سب سے بڑھ کر ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ رہائشی عمارتوں اور علاقوں میں زیادہ سے زیادہ سبزہ اگا کر، پانی کے ذخائر بنا کر اور سورج کی تپش کو کم کرنے کے دیگر طریقے اپنا کر اے سی کی ضرورت کو کم سے کم کرنے کی حکمتِ عملی اختیار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق اے سی گرمی سے بچاؤ کے لیے فوری حل تو ہے لیکن عالمی ماحول کو مزید گرم ہونے سے بچانے کے لیے ہمیں گھروں کو ٹھنڈا کرنے کے دیگر وسائل پر بھی کام کرنا ہوگا جن میں سے کئی ایک بہت مشکل بھی نہیں ہیں۔
اس تحریر کے لیے خبر رساں ادارے’ اے ایف پی‘ سے معلومات لی گئی ہیں۔