عراق میں کرونا وائرس کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے تمام بڑی مساجد اور مقدس مقامات بند کیے جا چکے ہیں تاہم نجف میں واقع حضرت علی کے روضے اور دیگر مقدس مقامات کی زیارت اب آن لائن کرنا ممکن ہوگا۔
دنیا بھر سے عراق آنے والے زائرین ہر سال حضرت علی کے روضے پر حاضری دیتے اور اس کی زیارت کرتے ہیں۔ مگر کرونا وائرس کے سبب زائرین کو یہاں آنے سے روک دیا گیا ہے۔
حضرت علی کے روضے کے گنبد پر سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے جس کی وجہ سے ان کا رنگ سنہری ہے جب کہ دیواروں پر سونے کی پتیاں جڑی ہیں۔
اب اس روضے کی زیارت انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ذریعے تمام زائرین کے لیے ورچوئل کر دی گئی ہے یعنی جو بھی چاہے وہ ویڈیو لنک کے ذریعے اسے کمپیوٹر یا موبائل پر دیکھ سکتا ہے۔
مہر روبے بھی ان افراد میں شامل ہیں جو اکثر اس مزار کا دیدار کرنے جاتے تھے۔ مگر اب اس کی زیارت آن لائن ہو جانے کے سبب وہ گھر بیٹھے بیٹھے ہی اس کی زیارت کرتے رہتے ہیں۔ ان کا گھر مزار سے محض چند سو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
مہر لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر میں ہی نماز پڑھتے ہیں۔ ایسے میں موبائل ان کے قریب ہی رکھا ہوتا ہے اور وہ گاہے بگاہے مزار کا دیدار کرتے رہتے ہیں۔
مقبرے کی وسیع و عریض عمارت، سنگ مرمر سے بنا فرش اور دیواروں پر کی گئی خطاطی مقبرے کو تابناک بنا دیتی ہے۔
عراق میں کرونا وائرس کا پہلا کیس نجف میں تین ماہ قبل رپورٹ ہوا تھا۔ اب تک ملک بھر میں کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے جب کہ 110 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
وبا کے پیش نظر ملک بھر میں لاک ڈاؤن ہے اور تمام ایئر پورٹس، ہوٹل اور تعلیمی ادارے بند ہیں۔ لوگوں کے اندرون ملک سفر پر بھی پابندی عائد ہے۔
کرونا کی وبا سے مذہبی مقامات کی بندش سے سیاحت کے شعبے کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ سیاحت بھی عراق کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور ملک کی نصف معیشت اس پر انحصار کرتی ہے۔
عراق میں ہر سال لاکھوں غیر ملکی زائرین نجف اور کربلا میں موجود مزارات کا دورہ کرتے ہیں۔ ان عازمین کی آمد عراق کے شہریوں کے لیے روزگار کا بڑا سبب ہے۔
عراق گزشتہ کئی دہائیوں سے تنازعات کے گھیرے میں ہے جب کہ جنگ کے سبب تباہ حال ہے۔ ایسے میں سیاحت واحد شعبہ ہے جس سے سالانہ لاکھوں ڈالرز کی آمدن ہوتی ہے۔
زائرین کی بہتات کے سبب تنگ پڑجانے والی گلیاں، مساجد اور مقدس مذہبی مقامات کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے سبب ان دنوں خالی ہیں حالانکہ برے سے برے جنگی حالات اور فرقہ ورانہ فسادات و تشدد کے دنوں میں بھی یہ تمام مقامات کبھی بند نہیں ہوئے۔
یہ علاقے نہایت گنجان آباد ہیں جب کہ خود کش حملہ آوروں نے مذہبی مقامات کو ہدف بناکر بھی کارروائیاں کی ہیں لیکن مزارات، مقبروں اور مساجد پر تالے کبھی نہیں لگے۔