چار سالہ اضحیٰ شکیل اپنے گھر کے صحن میں کھیل رہی تھی کہ اچانک ایک تیندوے نے صحن کی بیرونی دیوار پھلانگ کر اُسے دبوچ لیا اور پھر اپنے جبڑوں میں دباکر قریب واقع درختوں کے جھنڈ میں لے گیا۔
بعد ازں کئی گھنٹے کی تلاش کے بعد مقامی لوگوں کو اضحیٰ کی مسخ شدہ لاش ملی۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے صدر مقام سری نگر کے مضافات میں واقع رہائشی علاقے اوم پورہ میں رواں ماہ کے شروع میں پیش آئے اس واقعے کے صرف دو دن بعد ہی ضلع بڈگام ہی کے ایک دور دراز علاقے میں ایک نوعمر لڑکے کو مقامی لوگوں نے اسی طرح ایک حملے سے بچایا مگر وہ اب بھی اسپتال میں زیرِ علاج ہے۔ْ
لیکن 42 سالہ محمد رمضان اس لڑکے کی طرح خوش قسمت نہیں تھے۔ وہ 14 جون کو اسی ضلع کے لیدر منڈ نامی جنگل کے قریب اپنے مویشی چرا رہے تھے کہ ایک ریچھ نے ان پر اچانک حملہ کردیا جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
SEE ALSO: سیاسی صورتِ حال یا کرونا وبا، بھارتی کشمیر میں خود کشی کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں؟بھارتی کشمیر میں گزشتہ تین برس کے دوراں پیش آنے والا اپنی نوعیت کا یہ 37 واں واقعہ تھا۔ اس عرصے کے دوران اس طرح کے حملوں میں زخمی ہونے والوں کی تعداد سیکڑوں میں بتائی جاتی ہے۔
ایک برس میں 1600 سے زائد واقعات
محکمۂ وائلڈ لائف کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اپریل 2020 سے مارچ 2021 کے دوران ایک برس کے عرصے میں بھارت کے زیرِانتظام کشمیر میں انسانوں اور جنگلی جانوروں کے مابین تصادم کے 1614 واقعات پیش آئے۔
ان واقعات میں سے ا1049 میں جنگلی جانوروں کو محکمے کی طرف سے بروقت اقدامات کی وجہ سے انسانوں کو نقصان سے بچا لیا گیا۔
البتہ ان واقعات میں 21 تیندوؤں، اتنی ہی تعداد میں سیاہ ریچھوں، چار بندروں، ایک ہانگل اور ایک بھیڑیے کو جوابی کارروائیوں کے دوران ہلاک کرنا پڑا جب کہ 117 جنگلی جانوروں کو بچاؤ کی کارروائیوں کے دوران زندہ پکڑ کر واپس ان کے مسکنوں میں چھوڑ دیا گیا۔
علاقائی وائلڈ لائف وارڈن راشد نقاش نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتے یعنی 13 سے 19 جون کے دوراں صرف وادیٔ کشمیر میں انسانوں اور جنگلی جانوروں کے درمیان تصادم کے 102 واقعات پیش آئے۔ ان میں ایک شخص کی جان گئی اور دو زخمی ہوئے۔
بچے ہی تیندوؤں کے حملوں کی زد میں کیوں آتے ہیں؟
ضلع بڈگام اور وادیٔ کشمیر کے بعض دوسرے حصوں میں تیندوؤں کی طرف سے بچوں کو ہدف بنانے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دراصل کتا تیندوے کی پسندیدہ غذا ہے جس کی تلاش میں وہ رہائشی علاقوں کا رخ کرتا ہے جہاں آج کل آوارہ کتوں کی بھرمار ہے۔
ان کے بقول، اس دوران وہ چھوٹے بچوں پر بھی حملہ کر دیتے ہیں۔ اسی لیے بڑوں کے مقابلے میں بچے زیادہ تندوؤں کی زد میں آ رہے ہیں۔
جنگلی جانوروں کے قدرتی مسکن میں 'بے جا انسانی مداخلت'
راشد نقاش جنگلی جانوروں کے قدرتی مسکن میں انسانوں کی بڑھتی ہوئی مداخلت کو بھی ایسے واقعات کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
ان کے بقول، ''جموں و کشمیر کا لینڈ اسکیپ گزشتہ 50 برس میں یکسر تبدیل ہو گیا ہے۔ ایک طرف جہاں رہائشی بستیوں کا دائرہ غیر معمولی طور پر بڑھ گیا ہے اور اس کی وجہ سے جنگلوں اور شہری علاقوں کے درمیان کا بفر زون تقریباً ختم ہو گیا ہے۔"
اُن کا کہنا ہے کہ "زرعی اور باغبانی سرگرمیاں روایتی زرعی اراضی تک محدود نہیں رہی۔ جنگلی اراضی کو بھی اس میں تجاوزات کے ذریعے شامل کر لیا گیا ہے۔''
'جنگلات مسلسل کم ہو رہے ہیں'
محکمۂ جنگلات کے مطابق بھارتی کشمیر کے جنگلات کا دائرہ درختوں کی کٹائی، تجاوزات اور دیگر انسانی مداخلت کی صورتوں کے باعث سے مسلسل سُکڑ رہا ہے۔
بھارت کی وزارتِ ماحولیات، جنگلات اور ماحولیاتی تبدیلی نے رواں برس 21 مارچ کو نئی دہلی میں پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کو مطلع کیا تھا کہ جموں و کشمیر میں 2015 سے 2019 کے چار برس کے عرصے کے دوران جنگلات کی اراضی میں 420 مربع کلو میٹر کی کمی آگئی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
جموں و کشمیر کا کُل رقبہ دو لاکھ 22 ہزار 236 مربع کلو میٹر ہے جس میں سے 23 ہزار 612 مربع کلو میٹر جنگلات پر مشتمل ہے۔
راشد نقاش کے مطابق اگرچہ ان کے محکمے کی بنیادی ذمہ داری جنگلی جانوروں کے تحفظ کو یقینی بنانا اور ان کے مسکنوں کی رکھوالی کرنا ہے، تاہم انسانوں اور جنگلی جانوروں کے درمیان تصادم کے بڑھتے واقعات کے پیشِ نظر ان کے کندھوں پر ان واقعات کو روکنے اور انسانی جانوں کے نقصان کو بچانے کی ذمہ داری بھی آگئی ہے۔
محکمۂ وائلڈ لائف کے مینڈیٹ میں تبدیلی
ان کے بقول، 'ڈپارٹمنٹ آف وائلڈ لائف پروٹیکشن کا بنیادی منشور وائلڈ لائف نیشنل پارکس، پناہ گاہوں وغیرہ کی دیکھ بھال کرنا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کا چار ہزار مربع کلو میٹر سے زیادہ کا رقبہ جنگلی جانوروں کے تحفظ کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن اب انسانوں اور جنگلی جانوروں کے درمیان پیش آنے والے واقعات کے پیشِ نظر ہمیں اپنی افرادی قوت کے ایک بڑے حصے کو اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے کام پر مامور کرنا پڑا ہے۔ اسی طرح دستیاب وسائل اور مالی بجٹ بھی تقسیم ہو رہا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انسانوں اور جنگلی جانوروں کے درمیان تصادم کا معاملہ اتنا گھمبیر بھی نہیں جتنا اسے تصور یا ذرائع ابلاغ میں رپورٹ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات ترقی یافتہ ممالک میں بھی پیش آتے رہتے ہیں لیکن چوں کہ وہاں شعور اور آگہی زیادہ ہے۔ لہذٰا بہت کم لوگ جنگلی جانوروں کے ہاتھوں نقصان اٹھا رہے ہیں۔
'جارحانہ نہیں بلکہ دفاعی میکنزم'
راشد نقاش نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جنگلی جانوروں اور انسانوں کے درمیان تصادم کو روکنے کے لیے جنگلات میں انسانوں کی بے جا مداخلت اور جنگلی جانوروں کے مسکنوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو روکنے اور عوام میں بیداری کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
ان کے بقول، ''ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ ہم جنگلی جانوروں کے مسکنوں کو چھیڑنے سے اجتناب کریں گے اور ان کے بھٹک کر شہری آبادیوں کی طرف آنے کی صورت میں انہیں محفوظ راہداری دیں گے تو وہ شاید ہی ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔''
بھارتی کشمیر میں اس طرح کے واقعات میں انسانی جانوں کے نقصان میں کمی ہونے کے اپنے دعوے کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "ہمارے پاس 2006 سے جمع کردہ اعداد و شمار ہیں۔ جنگلی جانوروں کی طرف سے انسانوں پر حملوں کے نتیجے میں اموات میں کمی آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2013 میں اس طرح کے واقعات میں 25 افراد کی جانیں چلی گئی تھیں لیکن 2020 میں صرف پانچ افراد مارے گئے۔