آزاد خارجہ پالیسی کیا ہوتی ہے؟ کیا آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک مکمل طور سے آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرسکتا ہے؟ یہ سوال اس وقت پاکستان کی سیاسی صورت حال کے پس منظر میں اور بھی شدت سے ابھر کر سامنے آیا ہے، جہاں قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے اس بناء پر مسترد کر دیا کہ حکومت کا موقف تھا کہ اس کی آزاد خارجہ پالیسی کے سبب بعض بیرونی ممالک نے عمران خان کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے اپوزیشن کے ذریعے تحریک عدم اعتماد پیش کی ہے۔ اپوزیشن جو ارکان کی مطلوبہ تعداد کے ساتھ اسمبلی میں موجود تھی، کسی بھی سازش کا حصہ ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ تحریک عدم اعتماد بقول اس کے حکومت کی نا اہلی کے سبب لائی گئی ہے۔ اور اب معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔
ماہرین کی آراء میں آزاد خارجہ پالیسی کے بارے میں معمولی فرق کے ساتھ تقریباً یکسانیت پائی جاتی ہے۔
ایلان برمن واشنگٹن میں قائم امریکن فارن پالیسی کونسل کے سینئر نائب صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آزاد خارجہ پالیسی کا تصور تھیوری میں تو بہت اچھا لگتا ہے لیکن جب اس پر عمل کی بات آتی ہے تو یہ بہت مشکل کام ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کام کے مشکل ہونے کی بڑی وجوہات میں سے ایک سب سے بڑی وجہ معیشت ہے۔ جو ملک معاشی لحاظ سے کمزور ہوں ، وہ آزاد خارجہ پالیسی کیسے اختیار کر سکتے ہیں؟ جیسا کہ امریکہ کی ایک سابق سفارت کار رابن ریفل نے ایک موقع پر وائس آ ف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان جیسے ملکوں کے لیے جو اپنی بعض ضرورتوں کے لیے دوسرے ملکوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہوں، آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ آپ جن ملکوں سے اپنے خیال میں خود کو آزاد کرانا چاہتے ہیں، ان ہی پر اور ان کے اداروں پر آپ کا معاشی انحصار ہوتا ہے، جنہیں وہ کنٹرول کرتے ہیں۔
پاکستان یا وہ دوسرے ممالک جواپنی معاشی ضروریات کے لیےآئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر انحصار کرتے ہیں۔ تجارت کے لیے یورپی یونین اور دوسرے مغربی ممالک اورادارے جنہیں ترجیح دیتے ہیں، اگر وہ ان اداروں اور ممالک سے علیحدگی اختیار کریں گے اور دوری اپنائیں گے تو پھر اپنی ضروریات کے لیے انہیں چین، روس یا اور دوسرے ممالک کا رخ کرنا پڑے گا۔
SEE ALSO: پاکستان کے لیے آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی راہ میں کیا رکاوٹیں ہیں؟اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کی خارجہ پالیسی ملکوں کے ایک گروپ سے نکل کر دوسرے گروپ کے تابع ہو جائے گی۔تو پھر اس میں آزادی کہاں باقی رہ جاتی ہے۔
آزاد خارجہ پالیسی یا غیر وابستگی کے تصور کا جائزہ لینے کے لیے ماضی کا جائزہ لینا ہوگا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد، جب سرد جنگ کا آغاز ہوا تو اس وقت دنیا کے بہت سے ملک دو حصوں میں بٹ گئے تھے۔ ایک جانب مغربی ملکوں کا اتحاد تھا، اور دوسری جانب اس وقت کے سوویت یونین کا بلاک تھا۔ اور پھر ختم ہوتے ہوئے نو آبادیاتی نظام کے دوران افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کی اقوام آزادی کے حصول کی کوششوں میں لگی ہوئی تھیں۔ اسی دوران ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کی ایک کانفرنس میں نان الائینڈ موومنٹ یا غیر وابستہ تحریک کا آغاز ہوا۔ جس کے متعدد مقاصد میں سے ایک مقصد بڑی طاقتوں کی چپقلش سے الگ رہنا، خود انحصاری اور ہر ملک کی ایسی خارجہ پالیسی تھی، جو دوسرے ملکوں کے کسی بھی قسم کے دباؤ سے آزاد ہو۔ یہ غیر وابستہ تحریک ایک الگ موضوع ہے۔ جس پر اس وقت گفتگو کرنا مقصود نہیں ہے، بلکہ مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ آزاد خارجہ پالیسی کا بنیادی تصور کہاں سے آیا۔ کسی ملک کی آزاد خارجہ پالیسی کی کچھ بنیادی صورتیں ہوتی ہیں۔
مڈایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہنا ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ ہر لحاظ سے اتنے مضبوط ہوں کہ آپ کو کسی کی ضرورت نہ ہو اور دوسرے ملکوں کو آپ کی راہ پر چلنے کی ضرورت ہو، تو آپ اپنی مرضی کی خارجہ پالیسی بنا سکتے ہیں، جسے آپ یقیناً آزاد خارجہ پالیسی کہہ سکتے ہیں یا پھر آپ اپنی جیوپولیٹیکل حیثیت یا وسائل کے اعتبار سے اتنے غیر اہم ہوں کہ آپ کوئی بھی خارجہ پالیسی رکھیں، کسی پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ اسے بھی آپ آزاد خارجہ پالیسی یا جو نام چاہیں دے سکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
سابقہ سوویت یونین کے ٹو ٹنے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جب دنیا میں ایک ہی سپر پاور رہ گئی اور غیر وابستہ تحریک کا زور بھی بڑی حد تک مدھم پڑ گیا، تو زیادہ تر ملکوں کا رخ مغرب کی طرف ہو گیا ۔ لیکن پھر چین کے ایک معاشی قوت کی حیثیت سے ابھرنے کے بعد، ماہرین کے کہنے کے مطابق آزاد خارجہ پالیسی کی یہ تعریف کی جانے لگی کہ کسی ایک بڑی طاقت سے مستقل وابستگی اختیار نہ کی جائے اور نہ ہی کسی بڑی قوت کی غیر ضروری طور پر مخالفت کی جائے، بلکہ اپنے مسائل اور اپنے قومی مفادات کی بنیاد پر دوسرے ملکوں سے تعلقات قائم کیے جائیں اور طاقت ور ملکوں کی باہمی چپقلش سے الگ رہا جائے۔
لیکن اس میں مسئلہ یہ ہے کہ بڑی طاقتوں کے تنازع میں اگر آپ ایک کا ساتھ دیں تو دوسرا ناراض ہو جاتا ہے اور اگر الگ تھلگ رہیں تو دونوں کی ناراضگی مول لینی پڑتی ہے۔ اس لیے عملًا آزاد خارجہ پالیسی ایک ایسا نظریہ ہے، جس کا تصور تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس پر عمل اس وقت تک ناممکن ہے، جب تک آپ خاص طور سے معاشی لحاظ سے کسی کے محتاج ہیں خواہ وہ آئی ایم ایف کی محتاجی ہو، یا ورلڈ بینک کی، تیل کے حصول کا معاملہ ہو یا اپنے غیرملکی زر مبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے کسی ملک سے قرض کی ضرورت۔ اور اگر آپ ان ضرورتوں کے باوجود نام نہاد آزاد خارجہ پالیسی اپنانے کی کوشش کریں گے تو پھر بین الاقوامی سطح پر تنہائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا اور آج کے دور میں ایسے کئی ملکوں کی مثالیں ہمارے سامنے موجود بھی ہیں۔