پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ سال سے جاری تناؤ میں کسی طور کمی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے اور اکثر دونوں ملکوں کے درمیان تندوتیز بیانات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے جو باہمی کشیدگی میں مزید اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک روز قبل ہی بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ نے ایک بار پھر پاکستان کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے ملک میں کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو وہ سرجیکل اسٹرائیک نہ کرنے کی ضمانت نہیں دے سکتے ہیں۔
دوسری طرف پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ پاکستانی فوج سرحد پار سے کسی بھی جارحانہ اقدام کا بھرپورجواب دینے کے لیے تیار ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک فوجی کیمپ پر ہونے والے مبینہ عسکریت پسندوں کے حملے کا الزام بھارت نے پاکستان پر عائد کیا۔ تاہم اسلام آباد نے اس الزام کو مسترد کیا تھا۔ اس واقعہ کے کچھ دنوں کے بعد بھارت نے کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا دعویٰ کیا جسے پاکستان نے بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
بین الاقوامی امور کے معروف تجزیہ کار حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے بیانات خطے میں امن و سلامتی کے لیے کسی طور سود مند نہیں ہیں۔
" بھارت کی طرف سے اس قسم کے بیانات آنا کہ سرجیکل اسٹرائیک ہو گی ہم یہ کردیں گے وہ کردیں گے۔ ایک دوستانہ ماحول میں مسائل حل کرنے کی بجائے موجودہ بھارتی حکومت ایک واضح جارحانہ انداز میں گفتگو کرتی ہے جس سے علاقے میں امن اور علاقائی استحکام کو نقصان پہنچتا ہے ۔ میرا نہیں خیال کہ اس سے بھارت کو کوئی بڑائی حاصل ہو گی بلکہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات دینے کی بجائے مسئلہ کشمیر سمیت دیگر باہمی تنازعات کو بات چیت سے حل کرنے کی طرف پیش رفت کرنا ہو گی۔
پاکستان مسئلہ کشمیر کو بھارت کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ قرار دیتا ہے۔
پاکستان کی طرف سے بھارتی وزیرداخلہ کی بیان پر تو کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم پاکستان کے وفاقی وزیر برائے امور کشمیر برجیس طاہر نے کہا کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتر ی نہیں آ سکتی ہے۔
" پاکستان کی شدید خواہش ہے کہ اس معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے کیونکہ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں۔۔۔ بھارت بھی ایک جوہری طاقت ہے پاکستان بھی ایک جوہری طاقت ہے بجائے کسی نئی طبع آزمائی کے ہمیں اس معاملے کو مذکرات کو ذریعے حل کرنا چاہیے۔"
بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ نے رواں ہفتے پاکستان میں حافظ سعید اور جماعت الدعوۃ کے چار دیگر سینیئر راہنماؤں کو نظر بند کرنے اور حفاظتی تحویل میں لینے کے پاکستانی حکومت کے فیصلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسے محض فریب قرار دیا اور ان کے بقول اگر پاکستان سنجیدہ ہے تو وہ قانونی راستہ اختیار کرے اور ان کے خلاف مقدمہ چلائے۔
پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ جماعت الدعوۃ کے سربراہ کے خلاف اقدامات سلامتی کونسل کی دسمبر 2008 میں منظور کی گئی قرارداد اور عالمی تنظیم کی طرف سے عائد کی جانی والی تعزیرات کے تناظر میں کیے گئے ہیں اور اس سلسلے میں اسے بھارت کی طرف سے کسی توثیق کی ضرورت نہیں ہے۔
بھارت کا الزام ہے کہ 2008 میں ممبئی میں ہونے والا حملہ لشکر طیبہ نے کیا جس کی سربراہی حافظ سعید کرتے تھے جو اب جماعت الدعوۃ کے سربراہ ہیں۔ ممبئی میں ہوئے حملے میں چھ امریکی شہریوں سمیت 166 افراد ہلاک ہوئے تھے۔