بھارتی پولیس ابھی تک ایک اسرائیلی موٹر گاڑی پر بم حملےکے مشتبہ شخص کا پتہ نہیں لگاسکی ہے ، جس کا الزام اسرائیل ، ایران پر عائد کرتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ بھارت کے لیے ایران کے ساتھ سخت رویہ اپنانا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔
اسرائیل نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اس کے خیال میں ایران بھارتی دار الحکومت میں ہونے والے اس دھماکے کا ذمہ دار ہےجس میں دفاعی امور کے ایک عہدےدار کی اہلیہ شدید زخمی ہوئیں تھیں ۔
بھارت کے ایک ممتاز اخبار روزنامہ انڈین ایکسپریس نے جمعے کی اپنی اشاعت میں لکھاہے کہ اسرائیل حملے کی مذمت اور ایران کو مورد الزام ٹھہرا کر نئی دہلی سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کردہ ایک قرار داد کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
بھارت تھائی لینڈ کے سینیئر عہدے داروں کے ان علانیہ تبصروں کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہا جن میں کہا گیا ہے کہ بنکا ک کے ایک بم دھماکے میں جو آلہ استعمال کیا گیا تھا وہ بالکل اسی میگنیٹ بم جیسا تھا جیسا یہاں دہلی میں اسرائیلی گاڑی سے منسلک کیا گیا تھا۔
دہلی پولیس کے ترجمان راجن بھگت نے کہا ہے کہ بھارتی تفتیش کاروں نے ابھی تک دھماکہ خیز آلات کا موازنہ نہیں کیا ہے اور وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے ۔
بھارت کا کہنا ہے کہ وہ ایران کے خلاف اس وقت تک کسی اقدام پر غور نہیں کرے گا جب تک کوئی ایسی ٹھوس شہادت سامنے نہیں آتی جس سے ایران کے اس ہفتے کے حملے میں ملوث ہونے کا کوئی اشارہ ملے ۔
تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کی طرف سے یہ واضح الزام کہ اس حملےکے پس پشت ایران کا ہاتھ تھا ، پہلے ہی اس بڑے تجارتی وفد کے ارکان کو متفکر کر رہا ہے جو اس ماہ ایک طے شدہ پروگرام کے تحت ایران جانے والا ہے۔
بھارت نے ایران کےجوہری پروگرام کی حوصلہ شکنی سے متعلق مغربی اقتصادی پابندیوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکہ اوراسرائیل کا خیال ہے کہ ایران کے جوہر ی پروگرام کا مقصد وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیار تیار کرنا ہے ۔ نئی دہلی کا کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کی تائید کرے گا لیکن انفرادی ملکوں کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیوں کی حمایت نہیں کرے گا۔
بھارت کی جانب سے تہران کے ساتھ تجارت میں نمایاں اضافے کی کوشش کے فیصلے کو کچھ مغربی مبصر ین موقع پرستی اور پریشان کن قرار دے رہے ہیں ۔ لیکن دہلی میں موجود انٹر نیشنل سیکیورٹی کے تجزیہ کار اودے بھاسکر کہتے ہیں کہ تیزی سے ترقی کرتے بھارت اور ایران کے درمیان تجارت ایک ناگزیر حقیقت ہے ۔
ان کا کہناہے کہ ایران بھارت کو تیل اور ہائیڈرو کاربن فراہم کرنے والا سب سےبڑا ملک ہے ۔ یہ ایک ایسا انحصار ہے جو قومی مفاد پر براہ راست اثر انداز ہو رہاہے ۔ بھارت کے لیے ایران کے معاملے میں اس بلیک اینڈ وائٹ قسم کی قرار داد تک پہنچنا مشکل ہو گا۔ اور جب تک ہمیں تیل اور ہائیڈرو کاربن کی فراہمی کا کوئی مستند متبادل نہیں مل جاتا ، بھارت کے لیے اس پر غور کرنا کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔
تجزیہ کار بھاسکر کہتے ہیں کہ اگر ایران کا اس حملے میں کوئی عمل دخل پایا گیاتو میرا خیال ہے کہ بھارت اور ایران کو اس موضوع پر کچھ خاموش قسم کی مشاورت کرنا پڑے گی۔
اقتصادی نوعیت کے خدشات سے قطع نظر ، بھارت کے ایران کے ساتھ صدیوں پرانے ثقافتی تعلقات ہیں اور وہ 2014ء میں افغانستان سے امریکی قیادت کی استحکام سے متعلق فورسز کے طے شدہ انخلا کے بعد افغانستان کو مستحکم کرنے میں ایران کو ایک اہم شراکت دار سمجھتا ہے۔