ایک طرف جہاں مسلمانوں اور ہندووں کے کچھ حلقوں کی جانب سے بات چیت سے ایودھیا تنازعے کا حل تلاش کرنے کی کوشش شروع ہورہی ہے وہیں دوسری طرف مسلمانوں اور ہندؤں کی بہت بڑی اکثریت اِس کے خلاف ہے۔
بابری مسجد کے حق میں پیروی کرنے والا سنی سینٹرل وقف بورڈ اور ہندوٴں کا ایک فریق نرموہی اکھاڑا ، سپریم کورٹ جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ وقف بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی نے کہا ہے کہ ایک ماہ کے اندر الہ آباد ہائی کورٹ میں فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی۔
وقف بورڈ نے تین اہم نکات پر اپنی اپیل کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک یہ کہ حالیہ فیصلہ شواہد کی بنیاد پر نہیں بلکہ اعتقاد کی بنیاد پر دیا گیا ہے، دوسرے یہ کہ بابری مسجد پر مسلمانوں کا قبضہ 1949ء تک تھا جب خفیہ طریقے سے وہاں مورتیاں نصب کردی گئی تھیں اور تیسرے یہ کہ ہائی کورٹ کی یہ بات خلافِ حقائق ہے کہ اِس مسجد کی تعمیر اسلامی اصولوں کے خلاف کی گئی تھی۔
اپیل دائر کرنے سے قبل نو اکتوبر کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا ایک اہم اجلاس نئی دہلی میں ہو رہا ہے جب کہ دہلی جامع مسجد کے امام مولانا سید احمد بخاری نے سات اکتوبر کو مسلم اکابرین کا ایک اجلاس طلب کیا ہے۔اُنھوں نے مصالحت کی کوششوں کی مخالفت کی ہے۔
ایودھیا کے 90سالہ ہاشم انصاری جنھوں نے مورتیاں نصب کیے جانے پر پہلی رپورٹ لکھوائی تھی، معاہدے کی کوششوں میں پیش پیش ہیں۔
منگل کے روز کانگریس ورکنگ کمیٹی کا ایک اجلاس نئی دہلی میں منعقد ہوا جِس میں کشمیر اور ایودھیا کے مسئلے پر غور و غوض کیا گیا۔ کانگریس نے کہا ہے کہ وہ عدالتی عمل کا احترام کرتی ہے۔ اِس کے ساتھ ہی وہ متعلقہ فریقوں کی جانب سے مصالحت کی کوششوں کا بھی خیر مقدم کرتی ہے۔