بھارتی سیاسی اور انتظامی اشرافیہ نے اب تک اپنے لیے متعدد مراعات مخصوص کرا رکھی تھیں، جن میں اُن کی گاڑیوں پر جلتی بجھتی سرخ بتیاں سب سے نمایاں تھیں۔
شور مچاتے سائرن اور سُرخ رنگ کی جلتی بجھتی لال بتی پولیس والوں کی توجہ مبذول کرانے کا کام کرتی ہیں، جو ٹریفک کی بھیڑ میں بھی ’وی آئی پی‘ گاڑی کے لیے ترجیحی راستہ ہموار کر لیتی ہیں، وہ ٹریفک روک دیتے ہیں، وہ ریڈ لائٹ سگنل کی بھی پرواہ نہیں کرتے یہاں تک کہ ایمبولینس سے بھی آگے جاتے ہیں، جس سے عام آدمی میں برہمی پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔
اب، بھارتی ’وی آئی پی کلچر‘ کی اِس نمایاں علامت کو ختم کیا جا رہا ہے، جس سے عام شہری بے انتہا خوش ہے۔
یہ کہتے ہوئے کہ ’’بھارت کا ہر شخص وی آئی پی ہے‘‘، وزیر اعظم نریندر مودی نے ’لال بتی‘ کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے، جو ایک طویل عرصے سے اقتدار اور درجے کی علامت بنی رہی ہے۔ یکم مئی سے ’لال بتی‘ صرف ایمبولنس اور آگ بجھانے والے انجن کے لیے مخصوص ہوگی۔
یہ اقدام ایسے وقت سامنے آیا ہے جب تین سال قبل عدالت عظمیٰ نے سرخ بتی کے بڑھتے استعمال کو ’’راج (برطانوی حکمرانی) کی باقیات‘‘ قرار دیا تھا، جو ’’جمہوریہ کے تصور کی نفی ہے‘‘۔ عدالت ایک استدعا نمٹا رہی تھی جس میں متعدد عوامی اہل کاروں کو جلتی بجھتی لال بتی کے استحقاق پر سوال اٹھایا گیا تھا۔
فیصلے کے اعلان کے بعد، مودی نے ایک ٹوئیٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ علامتیں کسی طور پر بھی نئے بھارت کے عزم کی غماز نہیں ہیں‘‘۔
اس اقدام کا وسیع پیمانے پر خیرمقدم کیا گیا ہے، جو کہ ایک ایسی روایت ہے جس میں بھارت کے حکمراں عوام سے ’’الگ تھلگ ہو کر رہ جاتے ہیں‘‘۔