بھارت کے وزیر اعظم نریندرمودی نے جمعرات کو وسطی ایشیا کے ممالک کی سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علاقائی سلامتی اور خوشحالی کے لیے باہمی تعاون بڑھانے پر زور دیا۔
وسط ایشیائی ممالک کی یہ پہلی ورچوئل سربراہی کانفرنس ہے ، جس میں بھارت کے علاوہ قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اورازبکستان کے لیڈرشریک ہوئے۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعدانتہا پسند اسلامی گروپوں کےعلاقے میں قدم جمانے اوراپنا اثرورسوخ بڑھانے کے خطرات پرسبھی کو تشویش ہے۔
اسی تناظرمیں وزیر اعظم مودی نے زور دے کر کہا کہ "بھارت ایک پڑوسی کے طور پر وسطی ایشیا کو مربوط اور مستحکم دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے ، اس پر ہم سب کو تشویش ہے اور اسی حوالے سے علاقائی سیکیورٹی کے لیے ہمارا باہمی تعاون اور بھی اہم ہو گیا ہے"۔
سربراہی اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان سے متعلق معاملات کے بارے میں علاقائی اتفاق رائے کی ضرورت ہے، جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ افغانستان میں ایسی حکومت تشکیل دی جائے ، جس میں سبھی گروپ شامل ہوں۔ اعلامیے میں کہا گیاہے کہ مسائل سے گھرے اس ملک کے بارے میں کانفرنس میں شریک سبھی ممالک ایک دوسرے سے قریبی رابطے میں رہیں گے۔
جب سے طالبان نے افغانستان کا کنٹرول حاصل کیا ہے ، اس کے بعد سے بھارت کا وہاں عمل دخل برائے نام رہ گیا ہے۔ اسی لیے بھارت کو تشویش ہے کہ اس سرزمین کو اسلامی عسکریت پسند گروپ استعمال کرسکتے ہیں،جن میں بھارتی کشمیر کے علیحدگی پسند گروپ بھی شامل ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وسطی ایشیا کے مسلم اکثریتی ممالک کو بھی اسی طرح کی تشویش لاحق ہے ، کیونکہ یہ ایک معتدل اسلامی ریاستیں ہیں۔ خاص طورپر تاجکستان، ترکمانستان اورازبکستان کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں اورانتہا پسندی، دہشت گردی اورمنشیات کی تجارت ان کےملکوں تک پہنچ سکتی ہے۔
او پی جندل گلوبل یونی ورسٹی میں دفاع اور سیکیورٹی امور کے پروفیسرپنکج جے جھا کہتے ہیں کہ بھارت اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے افغانستان اورعلاقے کی سیکیورٹی میں اپنا عمل دخل بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان مختلف نظریات اور سیاسی مقاصد رکھنے والے دہشت گرد گروپس کی جنّت بن سکتا ہے اوراسی لیے وسطی ایشائی ملکوں کو اپنے ملکوں میں عدم استحکام پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
SEE ALSO: بھارت سے دو ٹن ادویات افغانستان پہنچ گئیں، 50 ہزار ٹن گندم بھیجنے کی تیاریاںبھارت کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس سربراہی اجلاس سے ان ممالک کے درمیان مضبوط تحریک پیدا ہوئی ہے اورباہمی تجارت کے فروغ اور تعاون کے لیے ایک ایجنڈا طے ہو گیا ہے۔
فی الحال وسط ایشیائی ملکوں کے ساتھ بھارت کی تجارت کا حجم محض دوارب ڈالر ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے رابطے کا واحد ذریعہ زمینی ہے جب کہ پاکستان بھارت کو اپنی زمین سے گزرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اب بھارت کو امید ہے کہ وہ ایران چابہار بندرگاہ کو استعمال کرکے اپنی تجارت کو وسیع کر سکے گا۔ ایران کی وسیع سرحدیں افغانستان اور ترکمانستان سے ملتی ہیں۔
اس سربراہی کانفرنس سے دو دن پہلے چین کے لیڈر شی جن پنگ نے وسط ایشیائی ملکوں کے ساتھ سفارتی تعلقات کی تیسویں سالگرہ کے موقعے پران ملکوں کے ساتھ کانفرنس کی میزبانی کی تھی۔ ان پانچ ممالک کے ساتھ چین کی تجارت کا حجم چالیس بلین ڈالرز کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ یہ ملک چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ" منصوبے کا اہم حصّہ ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین اور بھارت ان ملکوں کی جیو پولیٹکل اہمیت سے اچھی طرح آگاہ ہیں، جب کہ روس کا ہمیشہ ان ملکوں میں اثر و رسوخ رہا ہے۔