تازہ ترین اعداد و شما ر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بچوں کے خلاف جنسی تشدد اور جرائم بدستور بھارت کے لیے رسوائی اور بدنامی کا دھبہ بنے ہوئے ہیں۔
منگل کے روز بھارت کے سرگرم کارکنوں اور سرکاری عہدے داروں نے کہا کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ، تشدد اور انہیں جنسی مقاصد کے لیے اسمگل کرنے کے واقعات میں تقریباً 70 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
سن 2015 میں بچوں کے خلاف جنس سے منسلک 8904 مقدمات درج ہوئے تھے جب کہ پچھلے سال ان جرائم کی تعداد 14913 تھی۔
نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو این سی آر بی کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان میں بچوں سے زبردستی جنسی زیادتی، تشدد، جنسی مقاصد کے لیے ان کی اسمگلنگ اور فحش فلموں اور تصویروں کے لیے بچوں کے استعمال جیسے واقعات شامل ہیں۔
بھارت ایک قدامت پسند معاشرہ ہے جہاں خاندان اور کمیونیٹیز اس طرح کے واقعات کی پردہ پوشی کرتی ہیں کیونکہ ان جرائم کا نشانہ بننے والے اپنی بدنامی کے خوف سے سامنے نہیں آتے۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ ' انڈیا الائنس فار چائلڈ رائٹس' کی ایک عہدے دار رضیہ اسماعیل کا کہنا ہے کہ تشدد کی تمام اقسام میں، جس کا ذکر سب سے کم ہوتا ہے وہ ہے بچوں کے خلاف تشدد۔
وہ کہتی ہیں کہ ہمیں یہ کہاجاتا کہ اس موضوع پر بات نہ کی جائے کیونکہ اس سے متاثرہ خاندان کی عزت خاک میں مل جائے گی۔
رضیہ اسماعیل کا کہنا ہے کہ اگر ہم ان واقعات کو نہیں روکیں گے تو ہم اپنے معاشرے اور اپنے ملک کے چہرے پر سے رسوائی کا یہ داغ نہیں دھو سکیں گے۔
بھارت میں بڑے پیمانے پر بچوں کو جنسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سن 2007 میں کرائے گئے ایک سرکاری سروے سے پتا چلا تھا کہ 53 فی صد بچوں کو ایک یا ایک سے زیادہ مرتبہ جنسی زیادتی کا نشانہ بننا پڑا، لیکن بہت کم واقعات کی رپورٹ درج کرائی گئی۔
سن 2015 کی رپورٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ بچوں کے خلاف جنسی زیادتی کے تقریباً 95 فی صد واقعات میں ایسے لوگ ملوث تھے جنہیں بچے جانتے تھے ، مثلاً والدین ، رشتے دار ، ہمسائے اور ٹیچر وغیرہ۔
حالیہ برسوں میں بھارتی میڈیا بچوں کے خلاف جرائم پر آواز اٹھا رہا ہے لیکن سرگرم کارکنوں کا کہنا ہےکہ گھروں اور اسکولوں میں بچوں کو جنسی تشدد سے بچاؤ کی تعلیم نہیں دی جاتی۔
ورلڈ وژن انڈیا کے ڈائریکٹر شیرین تھامس کا کہنا ہے کہ وہ اگلے پانچ سال کے دوران بھارت کے پچاس لاکھ بچوں تک پہنچیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے زیادہ تر واقعات میں گھراور کمیونٹی کے افراد ملوث ہوتے ہیں ۔ ہم اسے روکیں گے اور بچوں کو انکار کرنا سکھائیں گے۔