|
نئی دہلی -- بھارت اور چین کے درمیان سرحدی امور پر مشاورت اور رابطہ کاری کے لیے قائم ورکنگ میکنزم (ڈبلیو ایم سی سی) کا 32 واں اجلاس جمعرات کو نئی دہلی میں ہوا۔
لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر آخری دو متنازع مقامات دیپسانگ اور ڈیمچوک سے فوجوں کی واپسی کے نتیجے میں بحال ہوئے باہمی تعلقات کے بعد فریقین کے درمیان یہ تازہ ترین اجلاس تھا۔
بھارتی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ فریقین نے 2020 میں پیدا ہونے والے مسائل کے حل اور فوجوں کی واپسی سے متعلق معاہدے کے نفاذ کی تصدیق کی۔
انھوں نے جلد ہی دونوں ملکوں کے خصوصی نمائندوں کے درمیان ہونے والے اجلاس کی تیاری بھی کی۔
بھارت کی جانب سے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول خصوصی مشیر ہیں جب کہ چین کے خصوصی مشیر وزیر خارجہ وانگ یی ہیں۔
ورکنگ میکنزم کے اجلاس میں بھارتی وفد کی قیادت جوائنٹ سکریٹری (مشرقی ایشیا) گورنگالال داس نے کی جب کہ چینی وفد کی قیادت چینی وزارتِ خارجہ میں سرحد اور بحری امور کے ڈائرکٹر جنرل ہونگ لیانگ نے کی۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق اجلاس کے دوران فریقین نے سرحدی علاقوں کی صورتِ حال کا جائزہ لیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ فریقین نے مقررہ میکنزم کے توسط سے فوجی اور سفارتی سطح پر مستقل بات چیت اور رابطہ کاری کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
انھوں نے دونوں حکومتوں کے درمیان ہونے والے معاہدوں، مفاہمتوں اور پروٹوکول کے مطابق سرحد پر مؤثر انداز میں امن و استحکام کے قیام کی ضرورت سے اتفاق کیا۔
یاد رہے کہ اس سلسلے میں چین کی جانب سے کوئی بیان میڈیا میں تاحال نظر نہیں آیا۔
مئی 2020 میں مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر پینگانگ جھیل کے ساحل پر دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان خونیں ٹکراؤ کے بعد جس میں بھارت کے 20 جوان ہلاک ہوئے تھے، باہمی تعلقات 1962 کے بعد سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئے تھے۔
بھارتی وزارت خارجہ نے 21 اکتوبر کو متنازع مقامات کے تعلق سے فریقین کے درمیان معاہدہ ہونے کا اعلان کیا تھا جس کی تصدیق چین نے بھی کی تھی۔
بعد ازاں 23 اکتوبر کو روس کے شہر کازان میں منعقد ہونے والے برکس سربراہی اجلاس میں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کی ملاقات ہوئی تھی۔
اس ملاقات میں سرحدی تنازعات کو حل کرنے اور باہمی تعلقات کو مجموعی طور پر معمول پر لانے کے لیے متعدد میکنزم کے احیا پر رضا مندی ہوئی تھی۔ تازہ ترین اجلاس اسی رضا مندی کے تحت ہوا ہے۔ ملاقات میں خصوصی نمائندوں کے درمیان مذاکرات کا فیصلہ بھی ہوا تھا۔
'بھارت نہیں چاہتا کہ چین کے ساتھ اس کے رشتے خراب ہوں'
عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار پروین ساہنی کا کہنا ہے کہ بھارت نہیں چاہتا کہ چین کے ساتھ اس کے رشتے بہت زیادہ خراب ہو جائیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ بیجنگ بھی نہیں چاہتا کہ نئی دہلی سے اس کے تعلقات خراب رہیں۔
ان کے خیال میں بھارت تجارتی و اقتصادی وجوہات سے بھی تعلقات کو بہتر رکھنا چاہتا ہے۔ باہمی تجارت میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کا جھکاؤ چین کی جانب ہے۔
انھو ںنے کہا کہ بھارت کا اسٹریٹجک فوکس امریکہ پر ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکہ سے اس کی دوستی گہری ہو۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ ٹرمپ کا رویہ چین کے ساتھ دوستانہ نہیں ہو گا۔
عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن کہتے ہیں کہ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت بھارت کی خارجہ پالیسی مشکل دور سے گزر رہی ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ جنوبی ایشیا میں چین کی تجارتی سرگرمیاں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ بنگلہ دیش میں بھی چین کافی سرگرم ہو گیا ہے۔
SEE ALSO:
پاکستان روس رابطے: ماضی کے برعکس تعلقات میں گرم جوشی کیوں بڑھ رہی ہے؟کیااڈانی گروپ کے خلاف امریکی فرد جرم بھارتی معیشت پر سرمایہ کاروں کا اعتماد کم کر سکتی ہے؟ان کے خیال میں بھارت نہیں چاہتا کہ بنگلہ دیش میں بھارت مخالف رجحانات کو چین کی طرف سے ہوا ملے۔ بات چیت تیز کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اسی ماہ بھارت آنے والے ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ روس اور چین میں گہری دوستی ہے۔ بھارت چین مذاکرات میں تیزی کی ایک وجہ پوٹن کا بھارت آنا بھی ہے۔
'بھارت متوازن مؤقف اختیار کرنا چاہتا ہے'
ادھر پروین ساہنی کہتے ہیں کہ بھارت ایک متوازن مؤقف اختیار کرنا چاہتا ہے۔ وہ نہ تو ٹرمپ انتظامیہ کو ناخوش کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی چین کو۔ اسی کے ساتھ وہ دنیا کو بھی یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ چین سے ان کے تعلقات ٹھیک ہو گئے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ بات چیت تو چل رہی ہے لیکن باہمی تعلقات بالکل معمول پر آ جائیں گے اس کی امید نہیں ہے۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست پروازیں شروع ہو جائیں یا کچھ اور اقدامات کیے جائیں۔ لیکن کچھ زیادہ کی امید نہیں ہے۔
یاد رہے کہ وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے منگل کو پارلیمان میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ چین کی کارروائیوں کی وجہ سے 2020 سے ہی باہمی تعلقات خراب تھے۔ لیکن ہماری مسلسل کوششوں کی وجہ سے باہمی تعلقات میں بہتری آئی ہے۔
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت سرحدی تنازع کو صاف ستھرے اور قابلِ قبول انداز میں حل کرنے کے لیے چین کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب جب کہ دونوں ملکوں کی فوجیں واپس ہو گئی ہیں تو اب کشیدگی کو ختم کرنے پر زور دیا جائے گا۔
ان کے مطابق چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات کا انحصار سرحد پر امن و استحکام کے قیام پر ہے۔ ہمارے حالیہ تجربات کی روشنی میں اس بات کی ضرورت ہے کہ سرحد پر زیادہ توجہ دی جائے۔
انھوں نے کہا کہ ہر حال میں جن باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں کہ فریقین سختی کے ساتھ ایل اے سی کا احترام کریں، دونوں میں سے کوئی بھی ایل اے سی کو یکطرفہ طور پر بدلنے کی کوشش نہ کرے اور دونوں ملکوں میں ہونے والے معاہدوں پر مکمل طور پر عمل کیا جائے۔
پشپ رنجن کہتے ہیں کہ گزشتہ دنوں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ ایس جے شنکر اور وانگ یی کی جی20 کے اجلاس کے موقع پر ہونے والی ملاقات میں بھارت چاہتا تھا کہ سرحدی کشیدگی سے متعلق تمام تنازعات کو جلد از جلد حل کر لیا جائے اور چین کے ساتھ بھارت کی تجارت کو متوازن کیا جائے۔
ان کے خیال میں سرحد پر فوجوں کو واپس لینے کی بات تو کی جا رہی ہے۔ لیکن اطلاعات کے مطابق اس معاملے میں چین کی جانب سے بہت زیادہ شفافیت کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایس جے شنکر اس سلسلے میں وضاحت کے ساتھ تمام باتیں بتانے سے کترا رہے ہیں۔ حکومت کو ایوان میں یہ واضح کرنا چاہیے کہ چین گلوان میں اپنی فوجیں کتنا پیچھے لے گیا ہے۔
ایس جے شنکر نے پارلیمان میں کہا کہ دونوں ملکوں کے ملٹری کمانڈرز کے درمیان مذاکرات کے دو درجن ادوار کے نتیجے میں اکتوبر کا معاہدہ طے پایا اور دونوں ملکوں کی فوجیں اپنی پوزیشن پر واپس ہوئیں اور 2020 میں ہونے والے ٹکراؤ سے قبل جہاں پیٹرولنگ ہو رہی تھی وہاں پھر شروع ہو گئی۔
ادھر چین میں بھارت کے ایک سابق سفیر اشوک کانتھا نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان اور پارلیمان میں ایس جے شنکر کے دیے گئے بیان میں تضاد ہے۔