|
بھارت نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کے حالیہ دورے پر چین کے اعتراض کو مسترد کردیا ہے۔ چین اس علاقے کے بارے میں دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس کا خطہ ہے۔
مودی کے دورے پر بیجنگ کی جانب سے سفارتی سطح پر احتجاج کے ایک روز بعد بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال کا کہنا تھا کہ چین کے اعتراضات "اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتے کہ اروناچل پردیش بھارت کا اٹوٹ حصہ تھا اور ہمیشہ رہے گا۔"
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ہفتے کو ہمالیائی ریاست کا دورے کے دوران چار ہزار میٹر کی بلندی پر تعمیر کی گئی دو لین والی سرنگ کا افتتاح کیا تھا۔
اروناچل پردیش میں نئی تعمیر کردہ سرنگ سرحدی ریاست میں فوجیوں اور فوجی سازو سامان کی نقل و حرکت میں سہولت دے گی۔
نریندر مودی نے اپنے دورے کے دوران سڑکوں کی ترقی اور بجلی کی پیداوار سمیت کئی انفراسٹرکچر کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا تھا۔
بھارت ہمالیائی خطے میں سڑکوں اور پلوں جیسے کئی دیگر انفراسٹرکچر کے منصوبوں کو ایسے وقت تیزی سے مکمل کر رہا ہے جب چین کے ساتھ اس کی 3500 کلو میٹر طویل سرحد پر کشیدگی برقرار ہے۔
SEE ALSO: چین کے نئے نقشے میں بھارت کے علاقوں پر دعویٰ، نئی دہلی کا احتجاجچین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے پیر کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ بیجنگ بھارتی وزیرِ اعظم کے دورۂ اروناچل پردیش کی "سخت مذمت اور سخت مخالفت" کرتا ہے۔
واضح رہے کہ چین اس علاقے کو سینگ نان کہتا ہے اور صحافیوں سے گفتگو کے دوران بھی ترجمان وزارتِ خارجہ نے کہا تھا کہ بھارت کو چین میں سینگ نان کے علاقے کو من مانی ترقی دینے کا کوئی حق نہیں۔
ترجمان نے کہا کہ بھارت کے متعلقہ اقدامات صرف سرحدی معاملات کو گرم اور دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر صورتِ حال خراب کریں گے۔
دوسری جانب بھارت نے چین کے احتجاج کو مسترد کردیا۔
رندھیر جیسوال نے کہا کہ بھارت کے رہنما وقتاً فوقتاً اروناچل پردیش کا دورہ کرتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے وہ ملک کی دیگر ریاستوں کا دورہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چین کو بھارتی رہنماؤں کے اندرونِ ملک دوروں یا بھارت کے ترقیاتی منصوبوں پر اعتراض کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
خیال رہے کہ چین ماضی میں بھی بھارتی رہنماؤں کے اروناچل پردیش کے دوروں پر اعتراض کرتا آیا ہے۔
گزشتہ برس اگست میں بھارت نے ان رپورٹس پر بیجنگ سے احتجاج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ چین نے ایک نیا نقشہ جاری کیا ہے جس میں بھارتی ریاست کو چین کے علاقے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔
SEE ALSO: بھارت چین فوجی محاذ آرائی کا چوتھا سالایشیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان تعلقات 2020 میں لداخ میں ہونے والی سرحدی جھڑپ کے بعد سے چھ دہائیوں کی سب سے کم سطح پر ہیں۔ اس جھڑپ میں بھارت کے 20 اور چین کے چار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
اس کشیدگی کے بعد سے دونوں ممالک نے اپنی سرحد پر ہزاروں فوجیوں کو تعینات کیا تھا جن کے پاس لڑاکا طیارے، آرٹلری اور ٹینکس بھی موجود تھے۔
بھارت کے وزیرِ خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے پیر کو اخبار 'انڈین ایکسپریس' کی جانب سے منعقد کرائے گئے میڈیا کانکلیو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "پچھلے چار سال میں ہم نے جو تناؤ دیکھا اس نے دونوں (ممالک) میں سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔" لہٰذا جتنی جلدی ہم اسے حل کرلیں گے، اتنا ہی دونوں کے لیے اچھا ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اب بھی ایک منصفانہ اور معقول حل کی تلاش کے لیے پرعزم ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے فریقین کی جانب سے کشیدگی کم کرنے کی کوششیں بڑی حد تک ناکام رہی ہیں۔ اگرچہ سرحد پر فوج چند فرکشن پوائنٹس سے پیچھے ہٹی ہے لیکن اب بھی بڑی تعداد میں اہلکار سرحد پر تعینات ہیں۔
نئی دہلی میں آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے منوج جوشی کے مطابق بھارت اور چین کے درمیان تعلقات بدستور سرد ہیں اور 2020 کے بعد سے فوجیوں کے انخلا پر دونوں ممالک کے فوجی کمانڈروں کے درمیان بات چیت کے 21 دور ہوئے لیکن فوجیوں کی بڑے پیمانے پر واپسی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔