بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے پارلیمنٹ میں اپنے دفاع میں جب کچھ وضاحت کرنا چاہی تو حزب اختلاف نے سننے سے انکار کردیا جس کے بعد انہوں نے اپنا کیس سوشل میڈیا ٹویٹر کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کیا
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کوئلے کی کانوں کی فروخت سے متعلق اپنی حکومت کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔
انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنے دفاع میں جب کچھ وضاحت کرنا چاہی تو حزب اختلاف نے سننے سے انکار کردیا جس کے بعد انہوں نے اپنا کیس سوشل میڈیا ٹویٹر کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کیا۔
وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف عائد کیے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں اور ان کے ثبوت میں ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے گئے۔ جس پر حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں نے اس قدرشور مچایا کہ ان کی آواز دب گئی۔ حزب مخالف کے ارکان ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے تھے۔
اس واقعہ کے کچھ ہی دیر کے بعد وزیر اعظم کے ٹویٹر کے سرکاری اکاؤنٹ پر ایک دفاعی بیان شائع ہوا جس میں انہوں نے کہاہے کہ نیشنل آڈیٹر نے 2004 اور 2009 کے عرصے کے دوران پرائیویٹ کمپنیوں کو کوئلے کی کانوں کی فروخت کا نتیجہ اخذ کرنے کے لیے جو منطق استعمال کی وہ اغلاط سے پر تھی۔
آڈیٹر کی رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ اس سے سرکاری خزانے کو لگ بھگ 34 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔
پارلیمنٹ میں اپنا دفاعی بیان دینے میں ناکامی کے بعد من موہن سنگھ نے پارلیمنٹ کے باہر نامہ نگاروں سے بات کی۔ انہوں نے کہاکہ میں ملک کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارا کیس بہت مضبوط ہے۔ سی اے جی کے اخذ کردہ نتائج پر قابل اعتراض ہیں اور جب یہ معاملہ پارلیمنٹ کی اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے آئے تو ہم اس رپورٹ کو چیلنج کریں گے۔
آڈیٹر کی رپورٹ پر اٹھنے والے شورشرابے نے گذشتہ ہفتے پارلیمنٹ کو معطل کرکے رکھ دیا تھا۔ حزب اختلاف کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے دھمکی دی تھی کہ وہ مسٹر سنگھ کی برطرف تک اپنی ہڑتال جاری رکھیں گے، جس کا مطلب یہ تھا کہ 8 ستمبر کو اپنے سیشن کے اختتام تک وہ پارلیمنٹ کو چلنے نہیں دیں گے۔
آڈیٹر کی رپورٹ میں وزیر اعظم پر براہ راست کوئی الزام نہیں لگایا گیا لیکن بی جے پی کا کہناہے کہ مسٹر سنگھ کو لازمی طورپر ذمہ داری قبول کرنی چاہیے کیونکہ کوئلے کی کانوں کی متنازع فروخت کے عرصے میں وہ اس وزارت کے انچارج تھے۔
حکومت نے آڈیٹر کی جانب سے کانوں کی فروخت کے اجمالی نقصانات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ فروخت کردہ 57 کانوں میں سے صرف ایک پر کان کنی ہورہی ہے۔
لیکن حزب اختلاف اپنے موقف پر سختی سے قائم ہے اور اس کے راہنماؤں کا کہناہے کہ حکومت اپنے خلاف الزامات کا تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہی ہے۔
من موہن سنگھ کی انتظامیہ کو اس سے پہلے بھی اربوں ڈالر کی کرپشن کے الزامات کا سامنا ہوچکاہے۔ ان بڑے الزامات میں سے 2010 کی دولت مشترکہ کھیلوں کا انعقاد تھا جس کی میزبانی بھارت نے کی تھی ، جب کہ دوسرا بڑا اسکینڈل موبائل فونز کے لائسنسوں کی فروخت تھی۔
انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنے دفاع میں جب کچھ وضاحت کرنا چاہی تو حزب اختلاف نے سننے سے انکار کردیا جس کے بعد انہوں نے اپنا کیس سوشل میڈیا ٹویٹر کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کیا۔
وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف عائد کیے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں اور ان کے ثبوت میں ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے گئے۔ جس پر حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں نے اس قدرشور مچایا کہ ان کی آواز دب گئی۔ حزب مخالف کے ارکان ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے تھے۔
اس واقعہ کے کچھ ہی دیر کے بعد وزیر اعظم کے ٹویٹر کے سرکاری اکاؤنٹ پر ایک دفاعی بیان شائع ہوا جس میں انہوں نے کہاہے کہ نیشنل آڈیٹر نے 2004 اور 2009 کے عرصے کے دوران پرائیویٹ کمپنیوں کو کوئلے کی کانوں کی فروخت کا نتیجہ اخذ کرنے کے لیے جو منطق استعمال کی وہ اغلاط سے پر تھی۔
آڈیٹر کی رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ اس سے سرکاری خزانے کو لگ بھگ 34 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔
پارلیمنٹ میں اپنا دفاعی بیان دینے میں ناکامی کے بعد من موہن سنگھ نے پارلیمنٹ کے باہر نامہ نگاروں سے بات کی۔ انہوں نے کہاکہ میں ملک کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارا کیس بہت مضبوط ہے۔ سی اے جی کے اخذ کردہ نتائج پر قابل اعتراض ہیں اور جب یہ معاملہ پارلیمنٹ کی اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے آئے تو ہم اس رپورٹ کو چیلنج کریں گے۔
آڈیٹر کی رپورٹ پر اٹھنے والے شورشرابے نے گذشتہ ہفتے پارلیمنٹ کو معطل کرکے رکھ دیا تھا۔ حزب اختلاف کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے دھمکی دی تھی کہ وہ مسٹر سنگھ کی برطرف تک اپنی ہڑتال جاری رکھیں گے، جس کا مطلب یہ تھا کہ 8 ستمبر کو اپنے سیشن کے اختتام تک وہ پارلیمنٹ کو چلنے نہیں دیں گے۔
آڈیٹر کی رپورٹ میں وزیر اعظم پر براہ راست کوئی الزام نہیں لگایا گیا لیکن بی جے پی کا کہناہے کہ مسٹر سنگھ کو لازمی طورپر ذمہ داری قبول کرنی چاہیے کیونکہ کوئلے کی کانوں کی متنازع فروخت کے عرصے میں وہ اس وزارت کے انچارج تھے۔
حکومت نے آڈیٹر کی جانب سے کانوں کی فروخت کے اجمالی نقصانات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ فروخت کردہ 57 کانوں میں سے صرف ایک پر کان کنی ہورہی ہے۔
لیکن حزب اختلاف اپنے موقف پر سختی سے قائم ہے اور اس کے راہنماؤں کا کہناہے کہ حکومت اپنے خلاف الزامات کا تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہی ہے۔
من موہن سنگھ کی انتظامیہ کو اس سے پہلے بھی اربوں ڈالر کی کرپشن کے الزامات کا سامنا ہوچکاہے۔ ان بڑے الزامات میں سے 2010 کی دولت مشترکہ کھیلوں کا انعقاد تھا جس کی میزبانی بھارت نے کی تھی ، جب کہ دوسرا بڑا اسکینڈل موبائل فونز کے لائسنسوں کی فروخت تھی۔