امریکی ریاست میری لینڈ کے علاقے لینم میں واقع ایک ہندو مندر کو اس کے ایک پروہت کا بھارت سے لوٹنے کے بعد کووڈ-19 ٹیسٹ پازیٹو آنے کے بعد عقیدت مندوں کے لیے عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
شری سیوا وشنو ٹمپل کے ایک اعلان میں کہا گیا ہے کہ پروہت کو مکمل ویکسین لگ چکی ہے۔ تاہم، پازیٹو ٹیسٹ کے باعث احتیاطی اقدام کے طور پر مندر کو سات دن کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
بھارت کچھ عرصے سے کرونا وائرس کی انتہائی تیزی سے پھیلنے والی ایک نئی ہلاکت خیز لہر کی زد میں ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک میں موذی وائرس کے متاثرین کی تعداد 12 مئی کو ورلڈو میٹر کے مطابق دو کروڑ 34 لاکھ کے قریب، جب کہ ڈھائی لاکھ سے زیادہ اموات ہو چکی تھیں۔
بھارت میں روزانہ رپورٹ ہونے والے نئے کیسز کی تعداد ساڑھے تین لاکھ کے لگ بھگ ہے، جب کہ پچھلے دنوں یہ گنتی چار لاکھ کے ہندسے سے بڑھ گئی تھی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ کیسز کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ اس وائرس میں مبتلا ہونے والے بہت سے لوگ اپنا ٹیسٹ نہیں کروا رہے۔
عالمی وبا کے تیز رفتار پھیلاؤ سے بھارت کے اسپتالوں پر شدید دباؤ پڑا ہے۔ مریضوں کے لیے بستر دستیاب نہیں ہیں اور ملک بھر میں آکسیجن کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ مریض اسپتال کے برآمدوں میں علاج کے انتظار میں پڑے ہیں۔
ہلاک ہونے والوں کے لیے قبرستان تنگ پڑ گئے ہیں اور مردے جلانے کے لیے شمشان گھاٹوں میں گنجائش نہیں رہی۔ خوف اس قدر ہے کہ لوگ اپنے مرنے والے عزیزوں کی آخری رسومات ادا کرنے سے اجتناب کر رہے ہیں اور اس کام کے لیے امدادی تنظیموں کو فون کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں ایک نیا تشویش ناک موڑ اس وقت آیا جب اس ہفتے دریائے گنگا میں کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی 100 کے لگ بھگ بہتی ہوئی نعشیں ملیں۔
ہندو مت کے پیروکار عموماً اپنے مردے جلانے کے بعد اس کی راکھ دریائے گنگا میں بہا دیتے ہیں۔ راکھ کے بجائے نعشوں کو دریا میں بہانے کا عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ شمشان گھاٹوں میں اب گنجائش نہیں رہی۔ عہدے داروں نے کہا ہے کہ وہ اس واقعہ کی تحقیقات کر رہے ہیں اور ہلاکتوں کا سبب جانے کی کوشش کر رہے ہیں، جب کہ صحت کے حکام نے ان واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انتباہ کیا ہے کہ آلودہ پانی کووڈ-19 کے مزید پھیلاؤ کا باعث بن سکتا ہے۔
جینیاتی طور پر تبدیل شدہ کووڈ-19 کی یہ قسم صرف بھارت کے لیے ہی مہلک ثابت نہیں ہوئی بلکہ اب وہ دوسرے ملکوں کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ وائرس کی اس قسم کو سائنس دانوں نے بی-1-617 کا نام دیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عالمی ادارہ صحت نے 12 مئی کو اپنے ایک بیان میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں منظر عام پر آنے والی کرونا وائرس کی یہ نئی قسم اب تک 49 ملکوں میں پھیل چکی ہے۔
صحت کے عالمی ادارے نے وائرس کی نئی قسم کی ہلاکت خیزی پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس وائرس نے بھارت میں ایک دن میں 4200 سے زیادہ ہلاکتوں کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ایشیا بھر میں کرونا وائرس کے کیسز کی صورت حال نے دھماکہ خیز شکل اختیار کر لی ہے۔
اس عالمی امدادی ادارے نے 12 مئی کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان دو ہفتوں کے دوران مذکورہ خطے میں 59 لاکھ نئے کیسز ریکارڈ پر آئے ہیں۔ یہ تعداد براعظم شمالی و جنوبی امریکہ، یورپ اور افریقہ میں اس مدت کے دوران سامنے آنے والے کیسز کی مجموعی گنتی سے زیادہ ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حالیہ عرصے میں جن 10 ملکوں میں کرونا وائرس کے نئے کیسز کی تعداد میں دو گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، ان میں سے سات کا تعلق ایشیا اور پیسفک علاقے سے ہے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس کے ایشیا پیسفک ملکوں کے لیے ڈائریکٹر الیگزینڈر میتھیو نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے بڑی سطح کے عالمی تعاون کی اپیل کرتے ہوئے زندگی بچانے والے وسائل، طبی آلات، وبا سے بچاؤ کی ویکسین اور مالی امداد فراہم کرنے کے لیے کہا ہے تاکہ ان لوگوں کی مدد کی جاسکے جو سخت خطرے میں ہیں۔
میتھیو نے کہا کہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم صرف اس صورت میں محفوظ رہ سکتے ہیں اگر تمام لوگ محفوظ ہوں۔