بھارت میں شہریت مخالف قانون کے خلاف ہونے والے ملک گیر مظاہروں میں شاعری کی بھی شمولیت ہو گئی ہے۔ مظاہروں کے دوران پاکستان کے انقلابی شاعر حبیب جالب اور فیض احمد فیض کے کلام کی دھوم مچی ہوئی ہے۔
مظاہروں کے دوران ایسی تختیاں بھی نظر آتی ہیں جن پر حبیب جالب کی ایک نظم کا یہ مصرعہ لکھا ہوا ہوتا ہے: ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا؛ جبکہ طلبہ کا گروپ اس نظم کو ساز کے ساتھ گاتا ہوا بھی نظر آتا ہے۔
اس نظم کو طلبا کے درمیان مقبول بنانے میں جواہر لال نہرو یونی ورسٹی کے آنکھوں سے معذور ایک اسٹوڈنٹ، ششی بھوشن صمد نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے ان مظاہروں سے کئی ماہ پہلے ہی جے این یو کے کیمپس میں اپنے ساتھوں کے ساتھ مل کر یہ نظم گائی تھی، جو بہت جلد سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔حالیہ احتجاج کے دوران ششی بھوشن پولیس تشدد کا نشانہ بھی بنے۔
اب جبکہ ان مظاہروں میں طلبہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں تو یہ پوری نظم ان میں گائی جا رہی ہے اور یہ بند بطور خاص گایا جا رہا ہے:
میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
اسی طرح، فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کی بھی خوب دھوم ہے۔ طلبہ کے گروپ اس کو بھی ساز کے ساتھ گا رہے ہیں۔ یہ اشعار بطور خاص گائے جا رہے ہیں:
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب تاج اچھالے جائیں گے
جب تخت گرائے جائیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔
بھارت کے شاعر راحت اندوری کا ایک شعر بھی بے شمار تختیوں پر لکھا ہوا نظر آ رہا ہے۔ انھوں نے 30-35 سال قبل ایک غزل کہی تھی جس کا ایک شعر آجکل ہر احتجاجی کی زبان پر ہے۔ وہ شعر ہے:
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
راحت اندوری کا کہنا ہے کہ انھوں نے تین عشرے قبل یہ غزل کہی تھی۔ لیکن، جب سے حکومت بدلی ہے ان کی یہ غزل کافی مقبول ہو گئی ہے اور خاص طور پر مذکورہ شعر یادداشتوں کے پردے سے باہر آگیا ہے۔