بھارتی حکومت بدعنوانی اور رشوت ستانی کے کئی بڑے بڑے اسکینڈلز میں گھری ہوئی ہے اور حزب اختلاف کی جماعتوں سے تصادم کی راہ پر چل رہی ہے۔ جس کے باعث معیشت کو بحالی کی جانب لے جانے والی اہم قانون سازی نہیں ہوپارہی
بھارت کی معاشی شرح نمو گر کر گذشتہ تین سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہے ۔ کئی ناقدین چند برس پہلے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کی سست روی کا الزام حکومت کی اقتصادی اصلاحات اور پالیسیوں کی ناکامی پر ڈال رہے ہیں۔
اپریل تا جون کی سہ ماہی میں بھارتی معیشت کی ترقی کی رفتار ساڑھے پانچ فی صد سالانہ کے لگ بھگ رہی جو اگرچہ گذشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہے لیکن ملک بھر میں، جہاں حالیہ عرصے میں معیشت مسلسل گراوٹ کا شکار رہی ہے، کسی نے اس پر خوشی کااظہار نہیں کیا ۔
حقیقتا مصنوعات، زراعت اور خدمات کے شعبوں میں گذشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں ترقی کی رفتار کم رہی ہے۔
دھرماکرتی جوشی ممبئی کے ایک معاشی ادارے کے چیف اکانومسٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سرمایہ کاری میں اضافہ صفر کے قریب ہے، نجی شعبے میں کھپت کم ہوئی ہے اور اگر آپ برآمدات پر نظر ڈالیں تو ان میں بھی کمی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ بھارت عالمی اقتصادی سست روی سے متاثر ہورہاہے، معیشت دانوں کا کہناہے کہ سست روی کی زیادہ تر ذمہ داری مقامی عوامل پر عائد ہوتی ہے۔
ان کا کہناہے کہ سب سے زیادہ فکر کی بات افراط زر اور سود کی بلند شرح ہے، جس کا نتیجہ کھپت میں کمی کی شکل میں برآمد ہوا ہے۔اور یہی بھارتی معیشت کی سست روی کا اہم سبب ہے۔
معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے لائی جانے والی معاشی اصلاحات کی مسلسل ناکامی بھی سست روی کی ایک وجہ ہے۔وہ اصلاحات کی ناکامی کی ذمہ داری سیاسی تعطل اور دباؤ پر ڈالتے ہیں۔
بھارتی حکومت بدعنوانی اور رشوت ستانی کے کئی بڑے بڑے اسکینڈلز میں گھری ہوئی ہے اور حزب اختلاف کی جماعتوں سے تصادم کی راہ پر چل رہی ہے۔ جس کے باعث معیشت کو بحالی کی جانب لے جانے والی اہم قانون سازی نہیں ہوپارہی۔
حکومتی پالیسیوں کے تعطل سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو دھچکا لگاہے ۔ حالیہ مہینوں میں کئی مقامی اور غیر ملکی کاروبارسرمایہ کاری کے اپنے منصوبے التوا میں ڈال چکے ہیں۔
حکومت بھی یہ تسلیم کرتی ہے کہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔
معاشی صورت حال کی خرابی کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعظم من موہن سنگھ ایک ماہ قبل نیا وزیر خزانہ تعینات کیاتھا اور یہ توقعات موجود ہیں کہ وہ سرمایہ کاری سے متعلق خدشات دور کرنے کے لیےاقدامات کریں گے۔
اس سے قبل حکومت کا اندازہ تھا کہ ملکی معیشت 6اعشاریہ8 فی صد سالانہ کی رفتار سے ترقی کرے گی لیکن بہت سے تجریہ کار وں کا خیال ہے کہ یہ رفتار اس سے کہیں کم ساڑھے پانچ فی صد سالانہ کے لگ بھگ رہے گی۔
یہ صورت حال ایک ایسے ملک کے لیے انتہائی مایوس کن ہے جو ایک سال پہلے یہ توقع کررہاتھا کہ اس کی معاشی ترقی کی رفتار دوہندسوں میں آجائے گی اور جو بڑے پیمانے پر یہ کہہ رہاتھا کہ عالمی معیشت کی بحالی میں وہ ایک انجن کا کردار ادا کرے گا۔
اپریل تا جون کی سہ ماہی میں بھارتی معیشت کی ترقی کی رفتار ساڑھے پانچ فی صد سالانہ کے لگ بھگ رہی جو اگرچہ گذشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہے لیکن ملک بھر میں، جہاں حالیہ عرصے میں معیشت مسلسل گراوٹ کا شکار رہی ہے، کسی نے اس پر خوشی کااظہار نہیں کیا ۔
حقیقتا مصنوعات، زراعت اور خدمات کے شعبوں میں گذشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں ترقی کی رفتار کم رہی ہے۔
دھرماکرتی جوشی ممبئی کے ایک معاشی ادارے کے چیف اکانومسٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سرمایہ کاری میں اضافہ صفر کے قریب ہے، نجی شعبے میں کھپت کم ہوئی ہے اور اگر آپ برآمدات پر نظر ڈالیں تو ان میں بھی کمی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ بھارت عالمی اقتصادی سست روی سے متاثر ہورہاہے، معیشت دانوں کا کہناہے کہ سست روی کی زیادہ تر ذمہ داری مقامی عوامل پر عائد ہوتی ہے۔
ان کا کہناہے کہ سب سے زیادہ فکر کی بات افراط زر اور سود کی بلند شرح ہے، جس کا نتیجہ کھپت میں کمی کی شکل میں برآمد ہوا ہے۔اور یہی بھارتی معیشت کی سست روی کا اہم سبب ہے۔
معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے لائی جانے والی معاشی اصلاحات کی مسلسل ناکامی بھی سست روی کی ایک وجہ ہے۔وہ اصلاحات کی ناکامی کی ذمہ داری سیاسی تعطل اور دباؤ پر ڈالتے ہیں۔
بھارتی حکومت بدعنوانی اور رشوت ستانی کے کئی بڑے بڑے اسکینڈلز میں گھری ہوئی ہے اور حزب اختلاف کی جماعتوں سے تصادم کی راہ پر چل رہی ہے۔ جس کے باعث معیشت کو بحالی کی جانب لے جانے والی اہم قانون سازی نہیں ہوپارہی۔
حکومتی پالیسیوں کے تعطل سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو دھچکا لگاہے ۔ حالیہ مہینوں میں کئی مقامی اور غیر ملکی کاروبارسرمایہ کاری کے اپنے منصوبے التوا میں ڈال چکے ہیں۔
حکومت بھی یہ تسلیم کرتی ہے کہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔
معاشی صورت حال کی خرابی کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعظم من موہن سنگھ ایک ماہ قبل نیا وزیر خزانہ تعینات کیاتھا اور یہ توقعات موجود ہیں کہ وہ سرمایہ کاری سے متعلق خدشات دور کرنے کے لیےاقدامات کریں گے۔
اس سے قبل حکومت کا اندازہ تھا کہ ملکی معیشت 6اعشاریہ8 فی صد سالانہ کی رفتار سے ترقی کرے گی لیکن بہت سے تجریہ کار وں کا خیال ہے کہ یہ رفتار اس سے کہیں کم ساڑھے پانچ فی صد سالانہ کے لگ بھگ رہے گی۔
یہ صورت حال ایک ایسے ملک کے لیے انتہائی مایوس کن ہے جو ایک سال پہلے یہ توقع کررہاتھا کہ اس کی معاشی ترقی کی رفتار دوہندسوں میں آجائے گی اور جو بڑے پیمانے پر یہ کہہ رہاتھا کہ عالمی معیشت کی بحالی میں وہ ایک انجن کا کردار ادا کرے گا۔