بھارت نے کہا ہے کہ وہ ایران سے تیل کی خریداری میں 11 فیصد کٹوتی کرے گا۔
یہ اعلان بظاہرامریکہ کی طرف سے سفارتی دباؤ کا نتیجہ ہے کیونکہ واشنگٹن متنازع جوہری پروگرام سے بعض رکھنے کے لیے تہران کو عالمی طور پر تنہا کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔
بھارت کے نائب وزیر برائے پیٹرولیم آر پی این سنگھ نے پارلیمان کو ایک تحریری بیان میں بتایا ہے کہ بھارتی ریفائنریوں میں ایران سے رواں مالی سال کے دوران ایک کروڑ 55 لاکھ میٹرک ٹن خام تیل کی درآمد متوقع ہے جب کہ گزشتہ سال یہ مقدار ایک کروڑ 74 لاکھ سے زائد تھی۔
’’دنیا کے کسی ایک خطے پر انحصار کم کرنے کے لیے بھارت دیگر ذرائع سے خام تیل درآمد کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ملک کی توانائی سے متعلق سلامتی کو مستحکم کیا جاسکے۔‘‘
بھارت نے ابتدائی طور پر ایران سے تیل کی خریداری میں 15 سے 20 فیصد تک کمی کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
گزشتہ ہفتہ بھارت کے دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے بھارتی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ وہ ایرانی تیل کی درآمد میں کٹوتی کرے کیونکہ جون میں نافذالعمل ہونے والے ایک نئے امریکی قانون کے تحت ایران سے تیل خریدنے والے ملکوں کو امریکہ کی جانب سے تعزیرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے نے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر یہ تبصرہ کرنے سے قاصر ہے کہ ایرانی تیل کی درآمد میں کی جانے والی کٹوتی بھارت کو مجوزہ تعزیرات سے محفوظ رکھ سکتی ہے یا نہیں۔
امریکی پابندیوں کا ہدف اُن ملکوں کے بینک ہوں گے جو ایران سے تیل کی خریداری جاری رکھیں گے۔ تاہم جاپان اور یورپی یونین پر یہ تعزیرات لاگو نہیں ہوں گی۔
ایرانی تیل پر انحصار کم کرنے کی مہم کے سلسلے میں بھارت سرکاری درآمد کنندگان کو ایران سے درآمدات میں کمی کرنے کی ہدایت کرچکا ہے۔
بھارت نے ایران سے تیل کی خریداری میں کٹوتی کا اعلان ایک ایسے وقت کیا ہے جب امریکی کے خصوصی ایلچی اور بین الاقوامی توانائی کے اُمور سے متعلق رابطہ کار کارلوس پاسکوال تین روز دورے پر ان دنوں بھارت میں ہیں۔