بھارت میں کسانوں کا احتجاج سات ہفتوں سے جاری

قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج 48 روز سے جاری ہے اور دارالحکومت دہلی سے متصل ہریانہ اور اتر پردیش (یو پی) کی سرحدیں بند ہیں۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کے آٹھ ادوار ہو چکے ہیں۔ تاہم کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

بھارت کی سپریم کورٹ نے منگل کو زرعی قوانین پر عمل درآمد روکنے کا حکم دیا ہے۔ تاہم کسانوں کا اصرار ہے کہ قوانین واپس لیے جانے تک وہ احتجاج جاری رکھیں گے۔

عدالت نے مسئلے کے حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ تاہم کسان رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ یہ پیش کش تو اُنہیں حکومت نے بھی کی تھی۔

احتجاجی کسانوں نے احتجاج کے دوران رنگ برنگی پتنگیں اُٹھا رکھی ہیں۔

اب بھی بھارت کے مختلف حصوں سے کسانوں کی دارالحکومت نئی دہلی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم پولیس نے ان کسانوں کو دارالحکومت کے داخلی راستوں پر روک رکھا ہے۔

منگل کو کسان ٹریکٹرز پر چڑھ کر احتجاج کرتے ہوئے زرعی قوانین کے خلاف نعرہ بازی کرتے رہے۔

نئے قوانین کے تحت کسانوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی اجناس کھلی منڈیوں میں فروخت کریں۔ تاہم کسانوں کو خدشہ ہے کہ اس سے بڑے کاروباری طبقات اُن کا استحصال کریں گے اور اُنہیں فصل کی مناسب قیمت نہیں ملے گی۔

سیکڑوں کسان ٹریکٹر ٹرالیوں کے ساتھ احتجاج میں شریک ہیں اور شدید سردی کے باوجود احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔

احتجاج کے پیشِ نظر پولیس نے سخت حفاظتی اقدامات کر رکھے ہیں اور نئی دہلی میں داخلے کے راستے رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دیے گئے ہیں۔